(سیّدہ )خولہ( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )خولہ( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
خولہ دختر ثعلبہ،ایک روایت میں خویلہ ہے اسی طرح ایک روایت میں خولہ دختر حکیم مذکور ہے،ایک اور روایت میں خولہ دختر مالک بن ثعلبہ بن احرم بن فہر بن ثعلبہ بن غنم بن عوف ہے،یوسف بن عبداللہ بن سلام سے خولہ اور خویلہ دونوں مروی ہیں،ابو یاسر نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے، انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے سعد اور یعقوب پسران ابراہیم سے،انہوں نے میرے والد سے،انہوں نے محمد بن اسحاق سے ،انہوں نے معمربن عبداللہ سے، انہوں نے حنظلہ سے،انہوں نے یوسف بن عبداللہ بن سلام سے روایت کی کہ انہیں خولہ زوجہ اوس بن صامت نے بتایا،کہ خدا نے میرے اور اوس بن صامت کے جھگڑے کے متعلق قرآن کی سورت مجادلہ نازل فرمائی۔
جناب خولہ کی روایت ہے،کہ میں اوس بن صامت کی بیوی تھی،وہ بہت بوڑھا ہونے کی وجہ سےبد اخلاق اور بدخُو ہوگیا تھا،ایک دن اُس نے مجھ سے کچھ کہا،جب میں نے جواب دیا،تو وہ بھڑک اٹھا اور کہا کہ تومیرے لئے میری ماں کی طرح ہے،اس پر وہ گھر سے نکل گیااور جب اہلِ قبیلہ کی مجلس میں جا بیٹھا،تو اسے کئے پر افسوس ہوا،وہاں سے واپس آیا تو اس نے مجھ سے ہم بستر ہونا چاہا،میں نے اسے صاف صاف کہہ دیا،خبردار اس وقت تک میر ے قریب مت آنا،جب تک ہم اس معاملہ میں خداورسول کا فیصلہ دریافت نہ کرلیں،وہ یہ سُن کر مجھ پر جھپٹا لیکن میں نے اپنے آپ کو اس سے اس طرح بچالیا،جس طرح ایک عورت بوڑھے اور کمزور خاوند سے بچ نکلتی ہے،پھر میں بھاگ کر اپنی ایک ہمسائی کے گھر چلی گئی،اس سے چند کپڑے عاریتہً لئے اور سیدھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں جاکر سارا واقعہ آپ کے گوش گزارکیا،اور اس کی بدسلوکی اور بد اخلاقی کی شکایت کی،حضورنے فرمایا،اے خولہ ، تیرا خاوند،تیرا ابنِ عم اور عمر رسیدہ ہے،تواس کے بارے میں اللہ سے ڈر،بخدا میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت ہی میں تھی،کہ حضورِ اکرم پر وحی نازل ہوئی،اور حسبِ معمول آپ پر غشی طاری ہوگئی،اور جب آپ کو افاقہ ہوا،تو فرمایا،اے خولہ تم دونوں کےبارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی، قَدسَمِعَ اللہُ قَولَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوجِھَاوَتَشتَکِی اِلَی اللہِ الٰی آخِرِہٖ،بعد ازقرأت آیات فرمایا،اپنے خاوند کو کہا،کہ وہ ایک غلام آزاد کرے،یا دو مہینے کے متواتر روزے رکھے اوریا ساٹھ مسکینوں کو ایک سو ساٹھ صاع کھجور کھلائے میں نے عرض کیا،یا رسول اللہ ! وہ ان تعزیرات میں سے کسی کا متحمل نہیں ہوسکتا،اس پر آپ نے فرمایا،نصف کھجوریں میں دے دوں گا،اس نے کہا،باقی ماندہ مقدار میں دے دوں گی،فرمایا ،تونے بہت اچھی بات کہی،اب جاؤ،اور اس کی طرف سے یہ کھجوریں مساکین میں بانٹ دو اور نیز اپنے میاں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیاکرو یونس بن بکیر نے باسنادہ ابن اسحاق سے خولہ دختر ثعلبہ لکھا ہے،اور جعفر نے عطابن حارث سے ،انہوں نے ابنِ اسحاق سے باسنادہ خولہ دخترمالک بیان کیا ہے،اور محمد بن ابوحرملہ نے عطا بن یسار سے روایت کیا،کہ خولہ دختر ثعلبہ اوس بن صامت کی زوجہ تھی،اور ابو اسحاق سبیعی نے یزید بن زید سے اور انہوں نےخولہ دختر صامت سے اسی طرح روایت کیا ہے،نیز ابن مندہ نے خولہ کی حدیث بیان کی اور خولہ دخترصامت کے نام سے ترجمہ میں لکھا،ہم ان کا ذکر ان شأ اللہ بعد میں کریں گے۔
اور محمد بن سائب کلبی نے ابو صالح سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی کہ خولہ دختر ثعلبہ بن مالک بن دخشم انصاریہ اوس بن صامت کی زوجہ تھی،ایک روایت میں جمیلہ اور ایک میں خویلہ دختر دلیج آیاہے،لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ،اول الذکر درست ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ چند احباب کے ساتھ جارہے تھےکہ ان کا گزر ایک بڑھیا کے پاس سے ہوا،خلیفہ وہاں کھڑے ہوگئے،اور کچھ دیر اس سے مصروف گفتگو رہے،ایک رفیق نے کہا،آپ نے اس بڑھیاسے قبل وقال میں اتنے آدمیوں کو روکے رکھا،خلیفہ نے کہا،خدا تیرا بھلا نہ کرے،تجھے معلوم نہیں کہ یہ کون ہے! یہ وہ خاتون ہے کہ خدانے جس کی شکایت کو ، ساتویں آسمان پر سن لیا،اور پھر سورہ مجادلہ نازل فرمائی،اگر یہ رات تک کھڑی رہتی تو میں بھی کھڑا رہتا،اور صرف نماز کے لئے اس سے علیحدہ ہوتا،اور پھر واپس آجاتا،تینوں نےذکر کیا ہے۔