ملک الشعراء خواجہ اکبر وارثی میرٹھی
ملک الشعراء خواجہ اکبر وارثی میرٹھی (تذکرہ / سوانح)
مقبولیت کی بلندی کو چھونے والی شخصیت مولانا خواجہ اکبر خان وارثی بن نظام علی خان نظامی بن امام علی خان موضع بجولی تھانہ کھر کھودا تحصیل ہاپڑ ضلع میرٹھ (بھارت) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
جس طرح انہوں نے اپنے کلام میں آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کی شرح و تشریح کی ہے اور مسلک اہلسنت وجماعت کے عقائد نظریات و معمولات کو بیان کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مشاہیر علماء کرام سے علوم دینیہ میں تحصیل کی ہوگی۔ اپنی دعویٰ کو ثابت کرنے کیلئے بعض نامور محققین کی آراء کو بطور دلیل پیش کرتا ہوں:
نعتیہ ادب کے پہلے اسکالر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے:
’’گو عربی اور فارسی میں تجربہ رکھتے ہیں اور ان زبانوں میں بھی نعت لکھتے ہیں لیکن اردو میں سلاست اور روانی کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘
ڈاکٹر محمد اسمعیل آزاد فتح پوری اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں لکھتے ہیں:
’’اکبر میرٹھی عالم باعمل تھے۔ خلوص اور عقیدت کے گرانمایہ اوصاف سے متصف ہونے کی وجہ سے ان کے کلام میں تڑپ ، بے قراری، درد و سوز و گداز ہر جگہ موجز ہے۔ عربی اور فارسی کے معتبر عالم ہونے کے باجود ان کی نعتیں سلاست، روانی ، بندش کی چشتی، صفائی، سادگی اور شیرنی میں آپ اپنی مثال ہیں۔ ان کی نعتیں تکلف اور تصنع سے پاک ہیں۔‘‘ (اردو شاعری میں نعت بحوالہ شعرائے میرٹھ)
بیعت:
آپ سلسلہ عایہ چشتیہ وارثیہ میں حضرت حافظ حاجی سید وارث علی شاہ علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۹۰۴ئ) دیوہ شریف (ضلع بارہ بنکی یوپی انڈیا) سے بیعت ہوئے۔
اولاد:
آپ کو اکلوتا بیٹا حکیم وجاہت علی وارثی (مدفون کراچی) تولد ہو اجو کہ صاحب اولاد ہے۔ ان کی رہائش گاہ لیاقت آباد چکر لگائے لیکن حکیم صاحب مرحوم کی اولاد کو بے ذوق پایا۔
تصنیف و تالیف:
اکبر وارثی مرحوم کے کلام کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ اس دور میں کسی کے کلام کو حاصل نہ تھی۔ ان کے ’’میلاد اکبر‘‘ کو بہت بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ ہندوستان کے شہروں کی طرح دیہات میں بھی بری عقیدت و محبت سے پڑھا جاتا تھا۔ مرد و زن کو کتاب حفظ تھی گھر گھر میں بچوں کو یاد کرائی جاتی ، گھر گھر میلاد اکبر سے درس ہوتے تھے، ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگتا، حاضرین مجلس غور و حوض سے سماعت فرماتے۔ اس طرح میلاد اکبر نے مصلح مبلغ کی طرح گھر گھر اسلام و سنیت کی تبلیغ کا با حسن و خوبی سے فریضہ انجام دیا۔ ملیاد اکبر نے گھر گھر حب رسول ﷺ کے چراغ روشن کئے۔ یہ مقبولیت عامہ محبوبیت کی دلیل ہے، جس کو عوام الناس نے دل میں بسالیا آنکھوں پر اٹھا لیا اس سے واضح ہوا کہ حضور پاک ﷺ نے اکبر وارثی کو اپنا محبوب بنا لیا تھا تبھی تو یہ عقیدت و محبت کے نظارے ہونے لگے تھے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے سب کو اتفاق ہوگا کہ خواجہ اکبر وارثی کی شہر ت کیپس پشت اخبارات، رسائل، جرائد، خصوصی شمارے، سیمینار اور کانفرنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ بغیر کوشش و کاوش انسانی کے انہیں رب کریم نے مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا تھا۔ (راشدی غفرلہ)
۱۔ میلاد اکبر کا سن تصنیف ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۹ء ہے۔ جس کا اظہار مولانا حافظ محمد خلیل الدین حافظ رئیس و آنریری مجسٹریٹ نے اپنے قطعہ تاریخ میں کیا ہے جو بطور تقریظ لکھا گیا تھا۔:
چھاپ دو حافظ کی بھی تاریخ طبع
اب چھپی روداد میلاد حضور
۱۳۳۷ھ
ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق نے اپنی کتاب ’’اردو میں نعتیہ شاعری ‘‘ میں آپ کی تصانیف کے ضمن میں درج ذیل کتب کا تذکرہ کیا ہے:
۲۔ باغ کلام اکبر یعنی اصلی دیوان اکبر حصہ اول ۱۳۶۶ھ/۱۹۴۷ء مطبوعہ علی بھائی شرف علی اینڈ کمپنی لمیٹڈ بمبئی سن ندارد
۳۔ ریاض اکبر معہ کیفیت چمن وارث (۳ حصے) ایضاً…سن ندارد
۴۔ گلشن وارث گلزار اکبر ۱۳۶۲ھ ایضاً…سن ندارد
۵ نہال روضہ اکبر
۶۔ گلستاناکبر
۷۔ کلیات
۸۔ ہدیہ اعظم
۹۔ جنت کی کلی
۱۰۔ جنت کے پھول
۱۱۔ عراج مجلیٰ بار پنجم شیخ احمد حسن و ذکر الرحمن تاجران کتب دہلی ۱۹۲۰ء (بحوالہ اردو میں میلاد النبی ص۷۰۶)
۱۲۔ تاریخ اسلام ۔ وغیرہ
تلامذہ:
حضرت اکبر وارثی کا حلقہ تلامزہ بھی وسیع تھا آپ کے شاگردوں میں شاہنامہ اسلام اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم بھی ہٰں۔ حفیظ ، استاد کو اس طرح دعا دے رہے ہیں:
’’حفیظ‘‘ استاد ’’اکبر‘‘ کو دعا دو
انہیں کے دم سے تم نغمہ سرا ہو
ان کے علاوہ بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
۱۔ منشی محمد زکریا ذاکر رامپوری
۲۔ منشی محمد عیسیٰ الہٰ آبادی
۳۔ منشی مشتاق حسین مشتاق
۴۔ منشی محمد عبدالوحید وحید
۵۔ حافظ عزیز الدین حافظ وغیرہ وغیرہ (تذکرہ شعرائے میرٹھ)
شاعری:
آپ کی لا زوال اور امر شاعری سے تبرکاً چند نعتیہ اشعار درج ذیل ہیں
ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے
بس حد ہے کہ سایہ بھی برابر میں نہیں ہے
ہو جلوہ محبوب کے کیا ماہ مقابل
اس چاند کے دھبہ، رخ انور میں میں نہیں ہے
خواجہ کی ایک اور نعت ہدیہ قارئین ہے:
جو خیال آیا تو خواب میں وہ جمال اپنا دکھا گئے
یہ مہک مہک تھی لباس کہ مکان سارا بسا گئے
ہمیں دام غم سے چھڑا گئے ہمیں معصیت سے بچاگئے
وہ نبی محمد مصطفی ﷺ کہ جوئے عرش علی گئے
یہ حلیمہ بھید کھلا نہیں، یہ مقام چون و چرا نہیں
تو خدا سے پوچھ وہ کون تھے تیری بکریاں جو چرا گئے
کہیں حسن بن کے قبول میں، کہیں رنگ بن کے وہ پھول میں
کہیں نور بن کے رسول میں ، وہ جمال اپنا دکھا گئے
ہو درود تم پر ہزار بار، مرے رہنما میرے نا خدا
مرا پار بیڑا لگا گئے،مری ڈوبی کشتی ترا گئے
تری جھونٹی کھونتی بچی کھچی، جو ملی تو اکبر وارثی
وہ بھرے نشے کی ترنگ میں کہ کہیں کہیں کی سنا گئے
محفل میلاد:
اکبر وارثی مرحوم میلاد خوان و نعت گو شاعر کے حوالے سے ہندوستان میں شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے قریہ قریہ نگر نگر، بستی بستی ، گھر گھر محفل میلاد برپا کرکے عوام الناس کے قلوب و اذہان میں حب رسول ﷺ کی شمع کو روشن کیا۔
یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوٰۃ اللہ علیک
کی صدائے دل نواز بلند کی۔ مسلمان گھر گھر میں اختتام محفل میلاد /نعت پر قیام فرماتے اور حضور پاک ﷺ کے دربار معلیٰ میں صلوٰۃ سلام کے گجرے پیش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں ’’اس سے زیادہ نہ کوئی سلام آج تک پڑھا گیا نہ سنا گیا۔ پاک و ہند کا شاید ہی کوئی مسلمان ہو جس کے کان اس سے آشنا نہ ہوں…درود سلام کے عنوان سے اردو میں درجنوں نظمیں لکھی گئی ہیں۔ خود اکبر وارثی کے سلام کی تقلید میں سینکڑوں سلام منظر عام پر آئے لیکن سادگی و صفائی، اثر و تاثیر اور قبول عام کے لحاظ سے کوئی بھی اکبر کے کلام کو نہیں پہنچا۔ (اردو کی نعتیہ شاعری بحوالہ تذکرہ شرعائے میرٹھ ص:۲۵۳)
وصال:
حضرت خواجہ اکبر وارثی نے ۶، رمضان المبارک ۱۳۷۲ھ بمطابق ۲۰ مئی ۱۹۵۳ء بروزبدھ لیاقت آباد کراچی میں انتقال کیا اور میوہ شاہ قبرستان (لیاری) میں مدفون ہوئے۔ (حوالہ جات کے علاوہ مواد مجلہ لیلۃ النعت ۱۹۹۴ء سے ماخوذ ہے)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)