صورت و سیرت میں سلف کے آئینہ خلف کے فخر خواجہ عزیز الملۃ والدین ابن خواجہ ابراہیم ابن خواجہ نظام الدین ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ تھیں اور رشتہ میں کاتب حروف کی پھوپھی لگتی تھیں۔ کاتب حروف اور اکثر ان اہل ارادت کا گمان ہے جو ان بزرگوار شیخ زادہ سے ملے ہیں کہ آپ سے کوئی صغیرہ و جود پزیر نہیں ہوئی۔ شیخ عزیز الدین کا باطن خدا تعالیٰ کی یاد سے معمور تھا اور ظاہر تبسم اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ رکھتے تھے۔ آپ کا دلِ مبارک مراقبہ اور ذکر خفی سے منور اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع تھا اور یہ سب باتیں اس برکت سے حاصل ہوئی تھیں کہ آپ نے حضرت سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں پرورش پائی تھی اور دستر خوان بچھنے کے وقت ہمیشہ حاضر رہتے تھے اگر کسی وقت خواجہ محمد اور خواجہ موسی جنہیں سلطان المشائخ سے دستر خوان کی دعا پڑھنے کا عہدہ ملا تھا حاضر نہ ہوتے تو یہ بزر گزادے دستر خوان کی دعا پڑھتے اور جب تک آپ دعا میں مشغول رہتے سلطان المشائخ برابر فرماتے رہتے تجھ پر خدا کی رحمت ہو اور یہ مرحمت ان کے حق میں مخصوص ہوتی تھی ان شیخ زادہ نے حضرت سلطان المشائخ کی مشغولی اور عالم مشاہدہ کی صحبت پائی ہے۔ جیسا کہ باب اور اد اور مشغولی کے نکتہ میں تحریر ہوا ہے۔ شیخ زادہ عزیز الدین فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں قصبہ کہربہ میں اپنے بھانجے کے کار خیر میں گیا ہوا تھا جب وہاں سے لوٹا تو اول جناب سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کی آپ مہربانی و شفقت سے فرمانے لگے کہ تمہارے بھانجے کا کار خیر کیونکرہوا۔ اور سماع کی مجلسیں ہی ہوئیں آپ مسکراتے جاتے اور ان باتوں کو دریافت کرتے جاتے تھے ازاں بعد فرمایا اپنی والدہ کو دیکھ آئے ہو میں نے عرض کیا کہ نہیں اول مخدوم کی پائبوسی کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس کے بعد اس سعادت کو حاصل کروں گا آپ نے میرے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا کہ جاؤ وہ سعادت بھی حاصل کرو۔ آخر الا مرجب ان شیخ زادہ کی حیات کا پیمانہ لبریز ہوا تو چند ان بزرگوار صاحب کرامت کی ذات مبارک کو کسی قسم کی بیماری و زحمت لاحق ہوئی دو تین روز تک بیماری کی تکلیف رہی ایک ساعت بھی لبِ مبارک کلام اللہ کی تلاوت سے خالی نہیں رہے۔ انجام کار اسی بیماری میں رحمت حق سے جاملے اور سلطان المشائخ کے روضہ متبرکہ کے سامنے مدفون ہوئے رحمۃ اللہ علیہ۔