شیخ زادہ دلکشا والی ولایت والا خواجہ عزیز الملۃ والدین صوفی ہیں۔ ان بزرگوار کی والدہ محترمہ بی بی مستورہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس سرہ العزیز کی صاحبزادی ہیں۔ یہ شیخ زادے بے شمار فضائل اور انگنت معانی و لطائف رکھتے تھے اور حضرت سلطان المشائخ کے روح افزا ملفوظات سے ایک کتاب مرتب کی تھی جسے تحفۃ الابرار فی کرامت الاخیار کے نام سے آج تک شہرت حاصل ہے اور جو سلطان المشائخ کی نظر مبارک سے اکثر اوقات گزری ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلطان المشائخ کے حضور میں دستر خوان بچھایا گیا تھا اور تمام حاضرین کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تھے۔ مولانا وجیہہ الدین پائلی ان شیخ زادے سے اونچی جگہ بیٹھ گیا۔ سلطان المشائخ نے دیکھا تو فرمایا۔ مولانا! جس طرح میں اس بات کو دوست نہیں رکھتا کہ کوئی مجعد متعمم سے بلند جگہ بیٹھے اسی طرح میں اسے بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی متعمم میرے مخدوم زادوں سے اونچے مقام پر بیٹھے اگرچہ مخدوم زادہ مجعد ہی کیوں نہ ہو اور حقیقت یہ تھی کہ مولانا وجیہہ الدین کو شیخ عزیز الدین کی نسبت یہ علم نہ تھا کہ آپ شیخ شیوخ العالم کے نواسہ ہیں جب انہوں نے آپ کو مجعد دیکھا تو جانا کوئی اور شخص ہے۔ لہذا اسی وقت مولانا وجیہہ الدین نے زمین پر منہ رکھ کر معذرت کی اور کھڑے ہوکر عرض کیا کہ حضرت! مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ شیخ زادہ عالم ہیں ورنہ کبھی یہ جسارت و دلیری بندہ سے ظہور میں نہیں آتی۔ ان بزرگ زادہ نے سلطان المشائخ کے فرمان کے بموجب قاضی محی الدین کاشانی کی خدمت میں تلمذ کیا تھا اور قاضی صاحب کو ان کی شاگردی پر فخر تھا۔ خوش خطی اور باریک کتابت میں فرید عصر اور یگانۂ روز گار تھے اس فن میں دنیا میں آپ کی نظیر پائی نہیں جاتی تھی اور جہاں میں کوئی شخص اس لطافت کے ساتھ کتابت نہیں کرسکتا تھا۔ جیسے آپ کے پر زور قلم سے ہوتی تھی۔ ایک دفعہ یہ شیخ زادے کاتب حروف کے گھر میں اس وسیلہ محبت سے جو آباء و اجداد میں مربوط تھا تشریف لائے اور اس شکستہ دل کو بزرگی و فضیلت عنایت کی ان فوائد کے اثناء میں جو آپ سلسلہ وار بیان کر رہے تھے کاتب حروف کی طرف رخ مبارک متوجہ کر کے فرمایا۔
گر وقت خوشت ھست غنیمت میدار
کان راچو نماز ھا قضا تو ان کرد
ان بزرگ کے ایک فرزند رشید تھے جو صورت و سیرت میں بالکل اپنے سلف کے فوٹو اور آئینہ تھے یعنی شیخ زادۂ قطب الملۃ والدین حسن ہیں خدا تعالیٰ ان کے دینی امور کو نیک کرے اور مردان خدا کے لیے مرتبے میں پہنچائے جو زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت میں بے مثل تھے اور بذل و ایثار حلم و عفو میں اپنے ہم عصروں سے سبقت لے گئے تھے۔ آپ شیخ نصیر الدین محمود کی شرفِ خلافت سے مشرف تھے اور شیخ نصیر الدین محمود کے خط مبارک سے لکھی ہوئی اجازت اپنے پاس رکھتے تھے خلق خدا سے بیعت لیتے ہیں اور ہزار ہا دل آپ کی بدولت آسائش پاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ اس بزرگ زادہ کو طریقت کی راہ پر مستقیم و قائم رکھے۔