فخر زہاد جمال عباد خواجہ عزیز الملۃ والدین ابن خواجہ ابو بکر مصلّے دار خاص ہیں جو اپنے زمانہ میں علم و تقوی اور ورع و احتیاط میں لاثانی اور عدیم النظیر تھے۔ اور سلطان المشائخ کی قرابت کے شرف سے مشرف و ممتاز تھے۔ اس بزرگ نے سلطان المشائخ کے چند ملفوظات ایک جگہ مرتب کر کے ایک دیوان میں جمع کیے ہیں اور ان کا نام مجموع الفوائد رکھا ہے۔ اس تالیف میں آپ نے اپنا نام عبد العزیز ابن ابو بکر خواہر زادہ سلطان المشائخ لکھا ہے۔ سبحان اللہ سالہا سال گزر گئے ہیں یہ عزیز الوجود شخص راہ طریقت پر سیدھا چل رہا ہے اور پچپن سے بڑھاپے تک کسی فرض نماز کی تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ہے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ مسجدوں میں گشت لگاتے پھرتے اور جب تک اولی نہ پاتے نیت نہ باندھتے جب آپ عین عالم شباب میں قدم رکھا اور تعلیم و تعلم میں غلو کیا تو جو کچھ آپ حاصل کرتے تھے اسے عمل کے ساتھ مقرون کرتے تھے یعنی آپ کا علم عمل کے ساتھ ساتھ تھا۔ اب آپ ہر شب جمعہ کو قرآن کا ختم کرتے ہیں۔ اور زمانۂ دراز سے سلطان المشائخ کے جماعت خانہ میں پانچ وقت امامت کرتے ہیں۔ مخلوق خدا کو توبہ و استغفار کی تلقین کرتے اور جو کچھ آپ کے پاس آتا ہے آنے جانے والوں کی مہمانی میں صرف کرتے اور محتاج و مساکین کے ساتھ نیک سکول سے پیش آتے ہیں باوجود یکہ آپ کوئی وظیفہ معین و مقرر نہیں رکھتے اور کسی رئیس و امیر کے پاس آمد و رفت نہیں کرتے مگر پھر بھی اپنے متعلقین کے ساتھ نہایت اچھی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے انہیں صبر جمیل عنایت فرمایا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یہ بزرگ سلطان المشائخ کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپ قیلولہ میں تھے خادم نے حضرت سلطان المشائخ سے عرض کیا کہ خواجہ عزیز ہر جمعہ کی شب کو قرآن کا ختم کرتے ہیں اس پر سلطان المشائخ نے فرمایا کہ خواجہ عزیز جب قرآن پڑھتے ہیں تو پکار کر پڑھتے ہیں یا آہستگی سے جواب دیا کہ آہستگی سے پڑھتے ہیں خادم کا یہ جواب سلطان المشائخ کے مزاج کے بہت ہی موافق پڑا اور وزنی الفاظ میں ان کی تعریف کی۔ ایک اور مرتبہ خواجہ مبشر کے فرزندِ رشید نور الدین جو سلطان المشائخ کی شفقت و مہربانی کے ساتھ مخصوص و ممتاز تھے خواجہ عزیز کو سلطان المشائخ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا مخدوم! عزیز آپ کے مرید ہیں۔ فرمایا۔ ہاں میرے مرید ہیں اور مجھے اس فرزند پر بہت بڑا فخر ہے۔ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اس کی درازی عمر کی وجہ سے متمتع اور فائدہ مند کرے۔