خواجہ کریم الدین سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ
خواجہ کریم الدین سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
صورت صفا سیرت وفا خواجہ کریم الملۃ والدین سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو مکارم اخلاق میں دنیا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے آپ کا ظاہر و باطن اہل تصوف کے اوصاف سے آراستہ تھا فضائل خاص اور علوم بے شمار میں بے مثل تھے آپ کی فیاض طبیعت غایت درجہ کی لطافت اور عقل کامل انتہا مرتبہ کی فراست پر واقع ہوئی تھی اور یہ تمام باتیں حقیقت میں اس کا ثمرہ تھا تھا کہ آپ سلطا المشائخ کی سلک ارادت میں منسلک تھے اور اپنے صفائی اعتقاد کی وجہ سے مخدوم جہان کی محبت میں نہایت راسخ قدم اور محکم تھے اور اس کے ساتھ ہی حضرت سلطان المشائخ کے ہمیشہ منظور نظر تھے یہاں تک کہ حضور کی بخشش و مہربانی آپ کے بارے میں حد درجہ تھی اور اس کا سبب یہ ہوا کہ آپ کے والد بزرگوار خواجہ کمال الملۃ والدین سمر قندی جو دولتِ خراسان کے وزیر اعظم تھے دیار ہندوستان میں تشریف لائے اور بادشاہ ہند کی طرح طرح کی مہربانیوں کے ساتھ مخصوص ہوئے۔ ملتان سے لے کر ہانسی تک کے تمام مواضع دپر گنہ جات جیسے دیپالپور اور پاک پتن وغیرہ آپ کی تفویض کئے گئے اور ان شہروں کی حکومت کا طغریٰ آپ کے نام پر لکھا گیا۔ آپ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ کے مرید ہوگئے تھے اور اسی وجہ سے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس سرہ کے نواسہ خواجہ اسحاق کے والد بزرگوار خواجہ محمد نے سلطان المشائخ کے فرمان کے بموجب اپنی صاحبزادی کو شیخ کریم الدین کے نکاح میں دے دیا تھا اور اس خاندان معزز کی قرابت کے سبب مولانا کریم الدین نہایت عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے آپ نے اپنی عمر عزیز کا اکثر زمانہ غیاث پور میں جناب سلطان المشائخ کے یاران اعلی میں گزارا۔ چونکہ آپ طبیعت لطیف اور نظم و لپذیر اور ہمت عالی رکھتے تھے اس لیے بڑے بڑے طباع اور صاحب فہم و فراست حضرات آپ کے اسیر محبت تھے چنانچہ خواجہ ضیاء الدین برنی رحمۃ اللہ علیہ کو آپ سے اس درجہ محبت تھی کہ اکثر اوقات کسی غریب و نادر کتاب کا نسخہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان بزرگوار کی خدمت میں پہنچاتے اور آپ کے کرم و بخشش کے حد سے زیادہ ممنون و مشکور ہوتے تھے جب سلطان المشائخ نے انتقال فرمایا تو آپ نے سلطان محمد تغلق انار اللہ برہانہ کی استدعا و خواہش سے ان سے ملاقات کی اور انواع و اقسام کی عنایتوں اور مہربانیوں کے ساتھ مخصوص ہوئے یہاں تک کہ سلطانی دربار سے آپ شیخ الاسلام والوزرائے ملک ستگانوہ کے خطاب سے معزز و ممتاز ہوئے اور آخر کار ان دیار میں تشریف لے گئے وہاں جا کر اپنی عقل کامل کے زور سے مسلمانوں کی تمام مہمیں اور امور حال و انصاف کے طریقہ پر جاری کئے اور ظلم و نا انصافی کو ان شہروں سے مٹا دیا۔ کاتب حروف نے ان بزرگوار کو مولانا فخر الدین زرادی خلیفہ سلطان المشائخ کی صحبت میں دیکھا ہے۔ حقیقت میں آپ جمال با کمال رکھتے صلحا کے لباس سے آراستہ تھے۔ آپ سلطان المشائخ کے اس خلعت خاص سے مشرف تھے جس نے حضور کے جسم مبارک کی ایک مدت تک صحبت حاصل کی تھی۔ انجام کار آپ نے ستگاہ نوہ میں رحلت فرمائی اور وہیں مدفون ہوئے۔ آپ کے مزار پاک کی خاک آج ان شہروں کے باشندوں کی آنکھوں کا کاجل ہے رحمۃ اللہ علیہ۔ مولانا کریم الدین کے ایک فرزند تھے جن کی ذات عدیم المثال اہل محبت کو غایت درجہ محبوب تھی اور جن کی فیاض طبیعت حقائق معرفت کے غوامض کی کاشف تھی آپ کا نوک قلم مغز سخن کو اس طرح لکھتا تھا کہ ان سے معانی کی آنکھیں کھل جاتی تھیں کسی بزرگ نے کیا خوب کہا ہے۔
چہ آتش است ندانم ضمیر اویارب
کہ نقد سکۂ معنی از و عیار گرفت
(خدا وند میں نہیں جانتا کہ اس ضمیر پر تنویر میں کس غضب کی آگ ہے کہ معانی کا نقد سکہ اس سے پر کھا جاتا ہے۔)
یعنی جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے نواسے شیخ زادہ معظم احمد بن خواجہ کریم الدین۔ خواجہ حکیم ثنائی فرماتے ہیں۔
در جنکتۂ بو حنیفہ کوفی
در ورع ھمچو شافعی صوفی
(نکتہ بیانی میں ابو حنیفہ اور زہد تقوی میں امام شافعی کی طرح صوفی تھے۔)
کاتب حروف اس بزرگ زادہ سے ایک تو اس وجہ سے کہ میرے اسلاف ان سے نہایت محبت رکھتے تھے اور ان کے بزرگ ہمارے خاندان سے کمال تعلق رکھتے تھے۔ دوسرے اس وجہ کہ حضرت خود بھی صاف محبت رکھتے تھے میں ان سے بدل محبت کرتا اور جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا علی ہذا القیاس ان کے برادر عزیز کہ دوستوں کے دل ان کے دیدار کے طالب اور فرحت انگیز دید کے خواہاں تھے نہایت بزرگ شخص تھے یعنی شیخ زادہ مکرم نظام الملۃ والدین رحمۃ اللہ علیہ۔ ان بزرگوار کی ذات پسندیدہ بعینہ صورت معنی تھے شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
این ظرافت کہ تو داری ھمہ دلھا بفرید
این لطافت کہ تو داری ھمہ غمھا بزو اید
(اس ظرافت سے تمام عالم کے دل گرویدہ ہوتے ہیں اور آپ کی لطافت یاد کر کے غم بڑھتا ہے۔)
(سِیَر الاولیاء)