حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی المعروف حضرت ایشاں رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی المعروف حضرت ایشاں رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کی ولادت باسعادت بخارا میں ہوئی آپ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ کے بزرگوں کا سلسلہ حضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ اعظم حضرت بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔
ظاہری و باطنی علوم کا حصول:
آپ نے ابتدائی تعلیم بخارا کے مدرسہ سلطانی میں حاصل کی بارہ سال کی عمر میں آپ قرآن حکیم حفظ کر چکے تھے جب کہ چودہ سال کی عمر میں تمام دینی علوم میں درجہ کمال حاصل کرلیا تھا علمائے وقت آپ کی علمی قابلیت کے زبردست معترف تھے اور آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ’’تاریخ لاہور‘‘ میں تحریر ہے کہ حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے بخارا کے شاہی کالج میں بھی تعلیم حاصل کی تھی اور نمایاں پوزیشن سے بہرہ ور ہوئے۔
چونکہ آپ علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے تھے اور طبیعت پہلے ہی تصوف کی طرف مائل تھی اس لیے اب یکسوئی سے باطنی تعلیم کے حصول کی طرف راغب ہوئے۔
مرشد کی تلاش:
علوم ظاہری میں آپ کو اس قدر کمال حاصل تھا کہ آپ کے فتویٰ کو علمائے وقت ایک سند کی حیثیت دیتے تھے آپ کی علمی قابلیت سے متاثر ہوکر بہت سے لوگ آپ کی مجلس میں بیٹھنا سعادت خیال کرتے تھے حتی کہ حاکم بخاری ابھی آپ کی خدمت میں اکثر حاضری دیا کرتا تھا اور آپ کا بہت معتقد تھا۔ جب آپ کے دل میں مرشد کی تلاش کے جذبے نے غلبہ کیا تو آپ اپنے مقصد کے حصول کی غرض سے بخارا سے نکلے اور سمر قند جا پہنچے۔ آپ نے حضرت خواجہ ابو اسحاق سفید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی جب کہ آپ کو نسبت حضرت اویس شاہ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ سمر قند میں ہی آپ نے بہت سی فیوض و برکات حاصل کیں جس سے آپ کو کافی روحانی تسکین حاصل ہوئی۔
سیر و سیاحت:
آپ نے سمر قند میں کچھ مدت قیام کیا اس دوران ہزاروں افراد آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے شہر کا حاکم بھی عقیدت مندانہ حاضر ہوا اور آپ کا مرید ہوا۔ سمر قند سے آپ ہرات تشریف لے گئے وہاں سے آپ نے قندھار کا رخ کیا بہت سے لوگوں کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرنے کے بعد کابل تشریف لے گئے کابل میں بھی لاتعداد لوگ آپ کے معتقد ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے کابل کا حاکم بھی آپ کے مریدین میں شامل تھا چنانچہ جب آپ کابل تشریف لائے تو وہ شہر سے باہر دو فر لانگ تک آپ کے استقبال کے لیے آیا اور آپ کا شاندار استقبال کیا نہایت عزت و احترام کے ساتھ اپنے ساتھ شہر میں لایا اور سبز باغ میں آپ کی رہائش کا انتظام کیا۔
شہنشاہ ہند کی ارادت:
حضرت خواجہ ایشان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمعہ کے دِن جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیا آپ کے خطبے میں اس قدر اثر تھا کہ حاضرین و سامعین کے قلوب پر وقت طاری ہوگئی لوگ آپ کے زور بیان کی تاثیر سے وجد میں آگئے اور ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ حاضرین میں سے دو نمازی رحلت کر گئے اس موقع پر بادشاہ بھی موجود تھا اس نے آپ سے ارادت و بیعت کی سعادت حاصل کی بادشاہ کے ساتھ ہزاروں لوگ بھی آپ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے دو برس تک کابل میں قیام فرمایا اس دوران آپ نے شام، عراق، روم اور کوہ طور کی طرف اپنے خلفاء مامور فرمائے اس کے بعد آپ نے کشمیر کا سفر کیا اور کشمیر پہنچ کر نوب عبد الرحمٰن کے ہاں قیام فرما ہوئے چونکہ نواب عبد الرحمٰن کا والد آپ کا مرید تھا اس لیے نواب عبد الرحمٰن نے آپ کی بہت آؤ بھگت کی کشمیر میں آپ نے نہایت وسیع و عریض اور عالی شان خانقاہ تعمیر کروائی جہاں سے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور فیوض و برکات سے مستفید ہوئے آپ لوگوں کی روحانی تربیت فرماتے ہزاروں لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور آپ کے حلقہ اردت میں شامل ہوئے۔ کشمیر میں ایک مدت تک رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھنے کے بعد شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر اس کے پاس اکبر آباد گئے اور وہاں سے شہنشاہ جہانگیر کے ہمراہ پھر کشمیر لائے کشمیر میں شہنشاہ جہانگیر کی موت واقع ہوگئی چنانچہ جہانگیر کی میت کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔
شہنشاہ جہانگیر آپ سے اس قدر اردت رکھتا تھا کہ جہاں بھی جاتا اس کی خواہش ہوتی تھی کہ آپ اس کے ساتھ رہیں تاکہ وہ آپ کہ فیوض سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکے۔
لاہور میں تشریف آوری:
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ جب راجوڑی کشمیر میں شہنشاہ جہانگیر وفات پاگیا تو اس کی میت کے ہمراہ آپ بھی لاہور تشریف لے آئے اور لاہور میں سکونت اختیار فرمائی جہانگیر کے انتقال کے بعد شاہجہان مسند اقتدار پر بیٹھا تخت پر بیٹھنے کے بعد شاہجہان نے لاکھوں روپے لاہور میں تقسیم کیے اور آپ کی خدمت میں بھی اس نے ایک لاکھ تٰنکہ بھیجا لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا شہنشاہ نے دوبارہ یہ ہدیہ نواب آصف خان کے ہاتھ آپ کی خدمت میں بھیجا نواب آصف خان نے عقیدت مندانہ اصرار کیا تو آپ نے قبول فرمالیا اس رقم سے آپ نے لاہور میں اپنی خانقاہ تعمیر کروائی کچھ رقم کشمیر میں قائم خانقاہ کے اخراجات کے لیے ارسال فرمائی اور کچھ رقم کو غربا و مساکین میں تقسیم کردیا۔
لاہور سے آپ اکبر آباد تشریف لے گئے پھر دہلی چلے گئے چونکہ شاہجہان بادشاہ آپ سے بہت عقیدت رکھتا تھا اس لیے اس کے کہنے سے لاہور واپس تشریف لے آئے اور لاہور میں مستقل قیام کا ارادہ فرمایا لاہور میں آپ اپنی زیر تعمیر خانقاہ میں سکونت پذیر ہوگئے اور لاہور میں آپ کی خدمت میں نواب وزیر خان جو کہ حاکم لاہور تھا حاضری کی سعادت حاصل کرتا رہتا تھا وہ آپ کا مرید تھا اور آپ سے فیوض و برکات حاصل کرنے کی غرض سے اکثر حاضر رہتا تھا۔
وصال مُبارک:
حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال مغل شہنشاہ شاہجہان کے عہد میں ۱۶۴۲ء میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے وصال سے پندرہ یوم قبل نماز عصر کے بعد نواب افتخار کان علی جاہ سے فرمایا کہ پندرہ دن کے بعد ہمارا انتقال ہوگا چنانچہ جب سولھواں دن ہوا تو آپ نے منگل کے دن مغرب کی نماز کے بعد مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ شعر پڑھا۔
الٰہی غنچۂ اُمید بکشا
مکی از روضۂ جاوید نما
اور پھر عشا کے وقت سے قبل سجدہ کی حالت میں وصال فرما گئے۔ اس وقت صوبہ دار لاہور سعید کان بہادر جنگ تھا۔ شاہجہان بادشاہ لاہور میں موجود تھا اس کو جب اطلاع دی گئی تو اس نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تجہیز و تکفین کے لیے میراں سید جلال الدین صدر الصدور کو بھیجا لاہور تشریف لانے کے بعد آپ تقریبا نو برس تک حیات رہے آپ کو لاہور میں جی ٹی روڈ بیگم پورہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کا مقبرہ نہایت عالیشان تعمیر کیا گیا تھا۔
کرامات:
آپ مادرزاد ولی اللہ تھے سلسلہ نقشبندیہ کے صاحب کرامت بزرگ اور لاہور کے نقشبندی اولیاء کرام میں بڑے پائے کے بزرگ تھے۔ جن دِنوں میں آپ بخارا سے سمر قند تشریف لے گئے اور سمر قند میں قیام پذیر تھے تو ان دنوں سمر قند پر دشمن نے چڑھائی کردی حاکم شہر شاہ زمان مرزا آپ کی شہرت سُن کر آپ کا معتقد ہوچکا تھا اس لیے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر دُعا کا خوا ہاں ہوا اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کرکے مریدوں کے حلقہ میں شامل ہوا آپ کی دعا سے دشمن کو ناکامی ہوئی اور شاہ زمان مرزا اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔
زندگی اور شفا:
ایک مرتبہ ایک شخص شرف بیگ کابل کے سفر پر روانہ ہونے لگا تو حضرت خواجہ خاوند محمود رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ایک کام کے متعلق ارشاد فرمایا لیکن اس نے کوئی پرواہ نہ کی جس کے باعث آپ کو رنج ہوا۔ دوسری طرف شرف بیگ کو بخار لاحق ہوگیا تین ماہ تک بخار میں مبتلا رہا کسی بھی طرح بخار پیچھا نہ چھوڑتا تھا آخر اس کا بھائی عوض بیگ اس کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے بیمار بھائی کو آپ کے پاؤں میں ڈالتے ہوئے عقیدت کا اظہار کیا اور اس کے حق میں دعائے صحت کرنے کی التجا کی اس پر آپ نے تکبر کہتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ رب العزت نے چاہا تو ضرور شفا حاصل ہوگی۔ مجلس میں موجود حاضرین نے یہ خیال کیا کہ حضرت خواجہ ایشان رحمۃ اللہ علیہ نے صحت کے متعلق دعا نہیں فرمائی۔ چونکہ شرف بیگ کا گھر آپ کی خانقاہ کے ساتھ ہی تھا اس لیے جب رات کا وقت ہوا تو شرف بیگ کا گھر آپ کی خانقاہ کے ساتھ ہی تھااس لیے جب رات کا وقت ہوا تو شرف بیگ کے گھر میں یکدم ہونے والے شور اور واویلا کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور پھر پتہ چلا کہ شرف بیگ کی موت واقع ہوگئی ہے اسی دوران عوض بیگ گھبرایا ہوا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے زمین پر گر پڑا اور نہایت زاری کے ساتھ کہنے لگا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ مَیں بھی اس بات کا سُن کر حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسکرائے اور ارشاد فرمایا کہ جاؤ گھر جاکر دیکھو شاید شرف بیگ زندہ ہو ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ یکا یک شرف بیگ کے گھر سے رونے کی آوازیں آنا بند ہوگئیں اور پتہ چلا کہ شرف بیگ نے آنکھیں کھول دیں اور زندہ ہوگیا ہے چنانچہ پھر چند دنوں میں اسے مکمل طور پر بیماری سے شفا حاصل ہوگئی۔
گستاخ کا حشر:
حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر مبارک تقریباً بیس برس کی تھی کہ جب آپ بخارا سے دخش تشریف لے گئے ایک روز حاکم دخش باقی بیگ کی مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ باقی بیگ بڑا تند مزاج اور متکبر شخص تھا اس نے جب آپ کو دیکھا تو بڑی گستاخی سے کہنے لگا کہ یہ لوگ جو خواجہ زادہ کہلاتے ہیں اصل میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ان لوگوں کے تو کان اور ناک کاٹ کر تشہیر کرنی چاہیے میرا نام باقی بیگ نہیں اگر مَیں یہ کام نہ کروں باقی بیگ کی اس گستاخی کو سُن کو آپ جلال میں آگئے اور فرمایا کہ مجھے اُمید ہے کہ تیرے کان اور ناک ایک روز ضرور کاٹے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھیے کہ اس بات کے پورا ہونے کا سبب اس طرح سے ہوا کہ شاہ بخارا عبد اللہ خان کا میر شکار اپنے شکاری جانور کے ساتھ دخش میں آیا اور اس سے کوئی خطا سر زد ہوگئی۔ باقی بیگ نے اس پر خوب تشدد کروایا اور پھر وحش سے نکال دیا اس نے راستے میں بادشاہ کے خاص باز کو ہلاک کردیا اور بادشاہ بخارا عبد اللہ خان کے پاس روتا پیٹتا ہوا حاضر ہوا کہ باقی بیگ نے میرے ساتھ ناحق ظلم کیا ہے مجھ پر تشدد کروایا اور غصے میں شاہی باز کو بھی ہلاک کردیا یہ سُن کر بادشاہ کو غصہ آگیا اور اس نے سپاہیوں کو بھیجا کہ وہ باقی بیگ کو گرفتار کرکے لائیں اور حکم دیا کہ اس کے دونوں کان اور ناک کاٹ دیے جائیں چنانچہ بادشاہ کے حکم کے مطابق باقی بیگ کے ساتھ اسی طرح کا سلوک ہی کیا گیا اس طرح اولیاء اللہ سے گستاخی کرنے والے کا بُرا حشر ہوا۔
حاکم شہر کی دھمکی:
جن دنوں میں آپ کشمیر میں اقامت گزین تھے اُن دنوں کشمیر کا حاکم حسین چک تھا اُس نے آپ کو اپنے پاس بلایا اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر یہاں سے چلے جاؤ ورنہ قتل کردیا جائے گا۔ آپ نے حاکم شہر کے تیور اور اس کی بد تمیزی و گستاخی ملاحظہ فرمائی تو اُس سے ایک ماہ کی مہلت طلب کی وہ مہلت دینے پر راضی ہوگیا ابھی پندرہ یوم بھی نہ گزرے تھے کہ قاسم خان میر بحری اکبر فوج کے ہمراہ کشمیر پہنچا اور کشمیر کی حکومت کو چک قوم سے چھین لیا اس طرح بد بخت حاکم شہر کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔
ملکہ نور جہاں کی صحبت یابی:
حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات ولی اللہ تھے ایک مرتبہ شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں بہت سے پیچیدہ امراض میں مبتلا ہوگئی کسی بھی طرح اُس کو افاقہ نہ ہوتا تھا بہت علاج کرائے گئے مگر صحت یابی کی کوئی اُمید دکھائی نہ دیتی تھی آخر آپ سے ملکہ نور جہاں کی صحبت یابی کی دُعا کروائی گئی آپ کی دُعا بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی اور ملکہ نور جہاں کو شفا حاصل ہوگئی۔
گستاخی کا انجام:
ایک مرتبہ آپ لاہور میں نماز عید کی ادائیگی کی غرض سے عیدگاہ میں تشریف فرما تھے۔ نمازیوں کا بہت بڑا اجتماع تھا لیکن لاہور کے صوبہ دار کا انتظار تھا اس کا انتظار کرتے کرتے نماز کے آخری وقت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ آخر وقت تابہ زوال ہے۔ آپ کی بات سے مولوی ابو صالح لاہور نے انکار کیا اور کافی گستاخی کے ساتھ آپ سے گفتگو کی آپ کو جلال آگیا اور فرمایا اے آفتابِ حیات تیرا تیراز برابر ممات آگیا۔ چنانچہ نماز کے بعد مولوی صاحب گھوڑے پر سوار ہوکر شہر کی طرف چلے تو گھوڑا ایک دم بدکا جس کے باعث مولوی صاحب گھوڑے سے نیچے گرے اور گردن کی ہڈی ٹوٹ جانے سے اُسی روز انتقال کر گئے۔
بعد از وصال کرامت:
آپ کے وصال کے بعد جب آپ کے روضہ کی عمارت تعمیر کی جا رہی تھی تو حاکم لاہور خان دوران جو کہ اولیاء اللہ سے عداوت و پُر خاش رکھتا تھا اس نے مجاور کو بلا کر بڑی گستاخی سے کہا کہ آج تک خاندان نقشبندیہ میں سے کسی بزرگ کا روضہ نہیں بنا بلکہ شاہ نقشبند کا بھی روضہ نہیں ہے لہٰذا اس روضہ کی عمارت کو گرا دیا جائے مجاور نے بڑی نے باکی سے جواب دیا کہ مجھے تو اس کے گرانے کا کوئی اختیار نہیں ہے اگر آپ کو اختیار ہے تو گرادو یہ کہہ کر مجاور تو واپس لوٹ آیا مگر اگلے دن خان دوران آپ کے روضہ مبارک پر آیا اور بے ادبی کرتے ہوئے حکم دیا کہ روضہ مسمار کردیا جائے لیکن جب وہاں سے واپس شالا مار باغ کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں گھوڑے سے گرا گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تین دن موت و حیات کی کشمکش میں رہ کر فوت ہوگیا۔
خفاء عظام:
حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بے شمار لوگوں کو راہِ حق پر گامزن کیا لاتعداد افراد آپ سے مستفید ہوئے کافی لوگوں کی آپ نے روحانی تربیت کی آپ کے سولہ خلفاء عظام ہیں جن کو آپ نے مختلف دور دراز کے شہروں میں خلق خدا کی ہدایت کے لیے مامور فرمایا ان خلفاء کے اسماء مبارکہ یہ ہیں۔
۱۔ حضرت خواجہ خاوند احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ آپ کے فرزند تھے۔
۲۔ حضرت خواجہ عبد الرحیم نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ حضرت خواجہ حسن عطار بن علاء الدین عطار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اولاد سے تھے۔
۳۔ حضرت خواجہ سید یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو حضرت شاہ شجاع کرمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اولاد سے تھے۔
۴۔ حضرت خواجہ محمد امین وحیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۵۔ حضرت خواجہ عبد العزیز وحیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۶۔ حضرت خواجہ ترسون المعروف خواجہ باقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۷۔ حضرت خواجہ شاد مان کابلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۸۔ حضرت خواجہ مرزا ہاشم رحمۃ اللہ علیہ برادر حضرت خواجہ دیوانہ بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو سبحان قلی خان بادشاہ بلخ کے مرشد تھے۔
۹۔ حضرت خواجہ لطیف درخشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۰۔ حضرت خواجہ مرزا ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بھائی تھے۔
۱۱۔ حضرت خواجہ باندی کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۲۔ حضرت خواجہ حاجی طوسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۳۔ حضرت حاجی ضیاء الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۴۔ حضرت خواجہ ابو الحسن سمر قندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۵۔ حضرت مولانا پائندہ حارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۶۔ حضرت خواجہ معین الدین احمد نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ آپ کے فرزند تھے۔
اولاد:
حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چھ بیٹے تھے جو کہ انتہائی نیک سیرت اور بلند کردار کے مالک تھے۔
حضرت خواجہ خاوند احمد نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:
آپ حضرت ایشان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزند ارجمند تھے ظاہری و باطنی علوم میں آپ کو درجہ کمال حاصل تھا اپنے والد محترم سے بیعت کی سعادت حاصل کی تھی جب کہ خلافت کے شرف سے بھی نوازے گئے آپ اللہ کے ولی ہیں والد محترم کے وصال کے بعد آپ ہی سجادہ نشین ہوئے اور مسند مشیخیت پر جلوہ افروز ہوئے آپ کا انتقال لاہور میں نواب خلیل اللہ خاں گورنر لاہور کے دور میں ۱۰۷۳ھ بمطابق ۱۶۶۲ء میں ہوا آپ کی قبر مبارک بیگم پورہ لاہور میں حضرت خواجہ ایشان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار مبارک کے احاطہ میں واقع ہے۔
حضرت خواجہ تاج الدین خاوند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:
آپ نہایت نیک سیرت بزرگ تھے گناہوں سے نفرت کرتے اور نیکی کی طرف راغب رہتے تھے خواجہ تاج الدین نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی پوری زندگی اپنے آپ کو گناہ کبیرہ سے بچائے رکھنے میں گزار دی اللہ تعالیٰ کا بھی آپ پر خصوصی فضل و کرم تھا کہ اللہ رب العزت نے آپ کو گناہ کبیرہ سے بچا کر رکھا آپ عالم با عمل تھے اور آپ کا شمار اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ قاسم خاوند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:
آپ کا شمار بھی اللہ تعالیٰ کے نیک اور بر گزیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ خاوند محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:
حضرت خواجہ خاوند محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد محترم حضرت ایشان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ارادت رکھتے تھے عابد و زاہد بزرگ تھے۔
حضرت خواجہ معین الدین احمد نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:
آپ کتاب ’’رضوانی‘‘ کے مصنف ہیں اپنے والد محترم حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خرقہ خلافت حاصل کیا صاحب فضل و کمال بندے تھے آپ کا شمار اولیاء کرام میں ہوتا ہے مختلف علوم حدیث وقفہ اصول وقفہ اصول وقفہ میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد تھے جب کہ باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد ماجد سے کی تھی طریقت کے تمام رموز و اسرار والد محترم کی خدمت اقدس میں رہ کر سیکھے تھے آپ کا انتقال کشمیر میں ۱۶۷۴ء میں ہوا۔
حضرت خوجہ بہاء الدین خاوند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ:
آپ عبادت گزار اور شب بیدار بزرگ تھے جب حضرت خواجہ ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال ہوا تو آپ اُن دنوں شاہی منصب پر فائز تھے والد ماجد کے وصال کے بعد شاہی ملازمت کو چھوڑ دیا اور گوشہ نشینی اختیار کرلی شب و روز عبادت الٰہی میں گزارنے لگے اپنے والد محترم سے فیض حاصل کیا انتقال کے بعد حضرت ایشاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار مبارک کے پاس دفن کیے گئے۔
(مشائخ نقشبند)