مالک دنیا، طالب عقبی خواجہ مؤید الدین رحمۃ اللہ علیہ جن کا ظاہر صفا سے آراستہ اور باطن وفا سے پیراستہ تھا زہد و تقوی میں معروف اور اعتقاد خوب میں مشہور تھے۔ آپ ابتدا میں دنیاوی کاموں میں مصروف تھے امور سلطنت کی بجا آوری کو فرض منصبی سمجھتے اور بادشاہ زادہ معظم کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے جس زمانہ میں سلطان علاؤ الدین ولی عہدی کے منصب پر ممتاز تھا اسے شاہ وقت کی طرف سے جاگیر ملی تھی تو خواجہ مؤید الدین اس کی پیشی میں نہایت اہم اور عظیم الشان امور کو انجام دیتے۔ چونکہ سعادت ابدی روز ازل سے آپ کی قسمت میں لکھی جا چکی تھی لہذا آپ سلطان المشائخ کے غلاموں کی سلک میں داخل ہوئے اور بالا ختیار دنیاوی تجملات سے ہاتھ اٹھا لیا۔ جب سلطان علاؤ الدین تخت شاہی پر جلوہ آرا ہوا اور مستقل طور پر سلطنت کی باگ اس کے ہاتھ میں دی گئی تو اس نے خواجہ کو یاد کیا اور جب سنا کہ وہ تارک دنیا ہوگئے ہیں اور سلطان المشائخ کے آستانہ پر سر رکھ دیا ہے تو اس کے ایک ایلچی کی زبانی جناب سلطان المشائخ کو پیغام بھجا کہ مخدوم کرم کیجیے اور خواجہ مؤید الدین کو اپنی خدمت سے رخصت کر دیجیے تاکہ وہ ہمارے کاموں کو سر انجام دے جب بادشاہ کافرستادہ سلطان المشائخ کے حضور میں پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اب خواجہ مؤید الدین نے ایک اور کام اختیار کیا ہے اور اسی کے انجام دہی میں کوشش کر رہا ہے۔ ایلچی جو بادشاہ کا پیغام لایا تھا سلطان المشائخ کا یہ جواب اس پر نہایت شاق اور گراں گزرا اور رنجیدہ آواز میں کہنے لگا کہ مخدوم! آپ تمام لوگوں کو اپنا جیسا کرنا چاہتے ہیں۔ سلطان المشائخ نے فرمایا اپنا جیسا کرنا کیا معنی میں تو یہ چاہتا ہوں کہ سب لوگ مجھ سے برتر و بہتر ہوجائیں۔ جب بادشاہ نے سلطان المشائخ کا یہ جواب سنا تو خواجہ مؤید الدین سے ہاتھ اٹھالیا۔ کاتب حروف نے ان بزرگوار کو دیکھا ہے۔ ایک پیر عزیز دراز قد۔ سفید پوست۔ خوبصورت۔ اور پاکیزہ خصلت تھے۔ آپ کا مزار سلطان المشائخ کی پائینتی روضہ مبارک میں حضور کے یاروں اور خدمت گاروں میں موجود ہے رحمۃ اللہ علیہ واسعتہ۔