صوفی با صفا۔ زاہد با وفا۔ شیخ مبارک گوپا موی رحمۃ اللہ علیہ بذل و ایثار اور امر المعروف و نہی عن المنکر میں تمام یاران اعلی میں مشہور تھے آپ کو امیر داد بھی کہا جاتا تھا سینۂ مصفا اور ہئیت دلکشا رکھتے تھے آپ جمال ولایت پیر کے عاشق اور جناب سلطان المشائخ کے سابق مریدوں میں سے تھے سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز نے پورے سو رقعے اپنے خط مبارک سے مزین و آراستہ کر کے اور طرح طرح کے کرم و بخشش کا اظہار کر کے آپ کی طرف بھیجے ہیں۔ جب یارانِ اودھ جیسے مولانا شمس الدین یحییٰ اور شیخ نصیر الدین محمود اور مولانا علاؤ الدین نیلی اور دوسرے عزیز سلطان المشائخ کی خدمت واپس جاتے تو ان کی نسبت حضور کی درگاہ سے حکم صادر ہوتا کہ جب تم گو پاؤ میں پہنچو تو خواجہ مبارک سے ضرور ملنا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کاتب حروف شیخ نصیر الدین محمود کی خدمت میں حاضر تھا اتنے میں خواجہ مبارک تشریف لائے اور معمولی مزاج پرسی کے بعد چند تنکہ پیش کر کے کہا کہ میں آپ کی ملاقات کی نیت کر کے گھر سے باہر نکلا تھا۔ اثنائے راہ میں ایک عزیز نے یہ چند تنکہ نذر کیے اور درویشوں کی رسم یہ ہے کہ جب کسی عزیز کو دیکھنے اور ملاقات کرنے کی غرض سے جاتے ہیں تو جو کچھ اثنائے راہ میں پیدا ہوتا ہے وہ اس شخص کی نذر کرتے ہیں جس کی ملاقات کو جاتے ہیں۔ چلتے وقت وہ چندتنکہ خواجہ مبارک کے نذر کیے۔ ان بزرگوار کو کاتب حروف کے والد سے بہت محبت تھی۔ اکثر زبان فیض ترجمان سے جاری ہوتا تھا کہ میں تمہارے والد کا مسلمان کیا ہوا ہوں۔ ایک دن کاتب حروف نے اس کی وجہ دریافت کی اور عرض کیا کہ حضرت آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے والد کا مسلمان کیا ہوا ہوں اس کے کیا معنی ہیں فرمایا۔ اصل کیفیت یہ ہے کہ میں سلطان علاؤ الدین کا داروغۂ عدالت اور اس کے خاصوں میں داخل تھا اور پیری مریدی کی راہ سے محض نا واقف۔ میں بالکل نہیں جانتا تھا کہ یہ طریقہ کیا ہے بلکہ اس جماعت کا سخت انکار کرتا تھا۔ جب مجھے تمہارے والد کی صحبت کا اتفاق ہوا تو انہوں نے مجھے اس پر آمادہ کیا کہ ایک دفعہ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے ملاقات کرو۔ الغرض مجھے سلطان المشائخ کی خدمت میں لے گئے اور میں اول ہی مجلس میں آپ کے شرف مکالمہ اور سوال و جواب سے مشرف ہوا اور اسی وقت حضور کے خادموں میں داخل ہوگیا اور تمام باتوں سے ہاتھ اٹھالیا۔ پس جب میں تمہارے والد بزرگوار کی شفقت و مہربانی کی وجہ سے اس دولت کو پہنچا اور حضور سلطان المشائخ کے غلاموں کی سلک میں داخل ہوا تو گویا ان کا مسلمان کیا ہوا قرار پایا۔ الغرض جب تک خواجہ مبارک رحمۃ اللہ علیہ زندہ رہے ان حقوق کی رعایت والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ اور نیز کاتب حروف کے ساتھ اپنے امکان و قدرت کے مطابق کرتے رہے۔ حق تعالیٰ یہ نیکیاں ان سے قبول فرمائے۔ آپ ہمت بلند اور حوصلہ فراخ رکھتے تھے اور دفعۃً دنیاوی تعلقات ترک کر دئیے تھے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ جس شخص کے گھر کھانا بھیجتے خوان طرح طرح کی نعمتوں سے آراستہ کر کے بیش بہا اور شفاف برتنوں میں بھیجتے اور فرما دیتے کہ یہ خوان مع برتنوں کے تمہاری نذر ہیں۔ نماز نہایت اطمینان و راحت و تعدیل ارکان اور بہت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ اداکرتے۔ کاتب حروف نے اس درجہ خشوع خضوع اور اس ہئیت کے ساتھ نماز پڑھتے کسی کو نہیں دیکھا آخر عمر میں چند روز بیمار رہ کر انتقال فرماگئے اور سلطان المشائخ کے روضہ کی پائینتی اول رستہ میں دفن ہوئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔