خواجہ شہاب الدین رحمتہ اللہ علیہ
خواجہ شہاب الدین رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
علم کے دریا تحمل و وقار کی کان تقوی سے آراستہورع سے پیراستہ مولانا شہاب الملۃ والدّین ہیں جو کثرت علم اور بے انتہا فضائل کے ساتھ مشہور تھے اوراکثر اوقات شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور اگر شیخ شیوخ العالم کی مجلس میں کوئی علمی بحث چھڑ جاتی تو آپ اس باب میں بحث شروع کرتے اور اس بحث کو نہایت دل آویز تقریر کے ساتھ تمام کرتے یہاں تک کہ شیخ شیوخ العالم کی تسلی ہوجاتی۔
سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ مجھ میں اور مولانا شہاب الدین میں محبت کا طریقہ سلوک تھا اور یہ بھی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں بغیر اختیار و قصد کے مجھ سے ایک جرأت و دلیری ہوگئی تھی اور اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک دن عوارف کا نسخہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں موجود تھا اور آپ اس میں سے کچھ فوائد بیان فرما رہے تھے وہ نسخہ نہایت باریک خط سے لکھا ہوا تھا یا کرم خوردہ اور غلط تھا۔ شیخ شیوخ العالم کو ایک موقع کے بیان کرنے میں کچھ توقف ہوا اور میں نے ایک اور نسخہ شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دیکھا تھا مجھے وہ فوراً یاد آگیا۔ اور شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیا کہ شیخ نجیب الدین کے پاس صحیح نسخہ ہے۔ میری یہ بات شیخ شیوخ العالم کے دل مبارک پر گراں گزری۔ ایک ساعت کے بعد زبان مبارک پر جاری ہوا کہ شاید اس سے یہ مراد ہے کہ درویش کو غلط نسخہ کے صحیح کرنے کی قوت نہیں ہے۔ ایک دفعہ یہ الفاظ زبانِ مبارک پر جاری ہوئے اور مجھے اس بات کا خیال تک نہ تھا کہ یہ الفاظ آپ کس کے حق میں فرما رہے ہیں کیونکہ اگر میں نے یہ قصداً کہی ہوتی تو اپنے اوپر گمان لے جاتا الغرض جب شیخ شیوخ العالم نے دو تین مرتبے یہ الفاظ زبانِ مبارک پر جاری کیے تو مولانا بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مولانا نظام الدین ! شیخ یہ الفاظ تمہاری بابت فرما رہے ہیں۔ میں جھٹ اٹھا اور سر برہنہ کر کے شیخ کے قدموں میں گر پڑا۔ اور میں نے کہا نعوذ باللہ اس گزارش سے میرا مقصود یہ تھا کہ عوارف کا ایک نسخہ جو مخدوم کے کتاب خانہ میں ہے میں نے اس نسخہ کو دیکھا تھا اور اس کی بابت حضور میں گزارش کی تھی اس کے سوا میرے دل میں اور کوئی بات نہ تھی ہر چند کہ میں نے معذرت کی لیکن میں شیخ شیوخ العالم کے چہرہ مبارک پر اسی طرح نا رضا مندی کا اثر دیکھتا تھا آخر کار میں وہاں سے اٹھ کر باہر آیا اس وقت میری عقل حیران تھی اور میں کوئی تدبیر نہیں کرسکتا تھا۔ جس اندوہ و رنج کا لشکر مجھ پر اس روز ٹوٹ پڑا تھا کسی کو ایسا غم و اندوہ نہ ہو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری تھے اور آہ سرد کے نعرے بلند تھے الغرض میں نہایت بے قراری و حیرانی کی حالت میں باہر آیا اور چلتے چلتے ایک کنوئیں پر پہنچا جی میں آیا اپنے تئیں اس کنوئیں میں ڈال دوں لیکن پھر میں نے تامل کیا اور اپنے دل میں کہا کہ اس طرح مر جانا آسان ہے لیکن یہ بدنامی اتنی بڑی ہے جس کی کبھی تلافی نہیں ہوسکتی یہ اندیشہ کر کے میں وہاں سے لوٹا اور نا اُمیدی و حیرت کی حالت میں پریشان و سراسیمہ پھرتا اور گریہ و زاری کرتا رہا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس وقت میرا کیا حال تھا۔ خلاصہ یہ کہ شیخ شیوخ العالم کے ایک بلند اقبال فرزند تھے جنہیں مولانا شہاب الدین کہہ کر پکارتے تھے ان میں اور مجھ میں محبت کا طریق سلوک تھا۔ جب ان کو میرے حال کی خبر لگی تو شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں گئے اور میرے حال کو ایک نہایت بہتر اور موثر طریقے میں عرض کیا شیخ شیوخ العالم نے محمد خورد کو میری تلاش و جستجو میں بھیجا چنانچہ میں ان کے ساتھ آیا اور شیخ شیوخ العالم کے قدموں میں سر رکھا اس وقت آپ خوش ہوئے اور اب رنجیدگی کے آثار آپ کے چہرۂ مبارک سے مٹ گئے۔ اس کے دوسرے دن مجھ کو بلایا اور بہت کچھ شفقت و مہربانی فرمائی اور ارشاد کیا کہ نظام الدین! میں نے یہ تمام باتیں تمہارے کمال حال کے لیے کی تھیں یہ الفاظ اس روز آپ کی زبان مبارک سے سنے کہ پیر مرید کے لیے مشاطہ ہے ازاں بعد آپ نے مجھے خلعت عنایت کیا اور لباس خاص سے مشرف فرمایا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک ضعیف العمر شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میں شیخ قطب الدین کی خدمت میں حاضر تھا۔ میں نے آپ کو وہاں دیکھا ہے۔ شیخ اسے پہنچانتے نہ تھے۔ لیکن جب اس نے اپنی شناخت کرائی اور چند واقعات بیان کیے تو آپ نے اسے پہچان لیا اس بڈھے کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جو اس کافر زند تھا اتفاقاً اس وقت کوئی علمی بحث چھڑ گئی اور وہ لڑکا ادب کا پہلو چھوڑ کر گستا خانہ شیخ سے بحث کرنے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ سخن بلند ہوا۔ شیخ نے بھی کسی قدر تندی کے ساتھ گفتگو کی میں اور مولانا شہاب الدین دروازہ کے باہر بیٹھے تھے جب غلبہ کوتاہ ہوا ہم دونوں اندر آئے دیکھا تو وہ لڑکا بے ادبوں کی طرح گفتگو کر رہا ہے۔ مولانا شہاب الدین نے اس گستاخی و بے ادب لڑکے کوتا دیب کے طور پر طمانچے مارنے شروع کیے اس پر وہ لڑکا غصہ میں جھلّا اُٹھا اور چاہا کہ سفاہت و حماقت سے مولانا کو چمٹ جائے۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ شیخ شیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز نے مسکرا کر فرمایا کہ باہم صفائی کرلو۔ چنانچہ مولانا شہاب الدین ایک نہایت عمدہ چابک اور کچھ روپے لائے اور ان باپ بیٹوں کو عنایت فرمائے۔ دونوں شیخ کی مجلس سے رخصت ہوکر لوٹ گئے۔ شیخ شیوخ العالم کا دستور تھا کہ ہر رات کو افطار کے بعد مجھے اور مولانا رکن الدین سمر قندی کو بلاتے اس وقت مولانا شہاب الدین کبھی ہوتے اور کبھی نہیں بھی ہوتے تھے ایک دن کا ذکر ہے کہ شیخ نے ہمیں بلا کر اس روز کی حکایت پوچھی اور اس بڈھے کے آنے اور مولانا شہاب الدین کے لڑکے کو ادب دینے کی حکایت بیان کی گئی۔ شیخ شیوخ العالم خاموشی کے ساتھ اس حکایت کو سنتے او ر ہنستے تھے۔ اسی اثناء میں میں نے عرض کیا کہ جس وقت اس نو جوان نے چاہا کہ مولانا شہاب الدین کو چمٹ جائے میں نے اس قدر کیا کہ اس کے ہاتھ پکڑ لیے شیخ شیوخ العالم نے ہنس کر فرمایا کہ تم نے خوب کیا شیخ سعدی خوب کہتے ہیں۔
اے دیدنت آسائش و خند ید نت آفت
گوئی از ھمہ خوباں بر بو دی بلطافت