جنہیں لوگ اجنی کہتے تھے۔ ایک بوڑھے عزیز تھے نورانی۔ اگرچہ ابتدائے حال میں آپ دنیا کی طرف مشغول تھے اور اہل دنیا سے میل جول رکھتے تھے لیکن جب سعادت ابدی کا ستارہ اوج اقبال پر چمکا تو آپ سلطان المشائخ کے غلاموں کے سلک میں داخل ہوئے اور حضور کی مجلس اقدس میں نشست و برخاست کرنے کا مرتبہ پایا سلطان المشائخ کے ملفوظات سے آپ نے ایک عجیب و غریب کتاب مرتب کی ایک دفعہ ان بزرگوار نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر ارشاد ہو تو آنے جانے والوں کے لیے ایک مکان تیار کروں فرمایا کہ خواجہ شمس الدین! یہ کام ان مشاغل سے کسی طرح کم نہیں ہے جن سے تم باہر آئے ہوئے ہو۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے آپ کو وہ دوات عنایت کی جو آپ کی حضور میں رکھی ہوئی تھی اور اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ جو آپ کو آخر عمر میں پیش آیا یعنی لوگوں نے پھر انہیں دنیاوی اعمال میں مشغول کیا اور ظفر آباد کی جاگیر ان کے حوالہ کی چنانچہ آپ کا وہیں انتقال ہوا اور وہیں مدفن قرار دیا گیا رحمۃ اللہ علیہ۔