عطاءِ خواجہ مولانا سید احمد علی رضوی اجمیری
عطاءِ خواجہ مولانا سید احمد علی رضوی اجمیری (تذکرہ / سوانح)
عطاءِ خواجہ مولانا سید احمد علی رضوی اجمیری
گدی نشین آستانۂ غریب نواز رضوی منزل اجمیر شریف
ولادت
پیر طریقت مولانا سید احمد علی رضوی چشتی کی ولادت ۱۵؍اپریل ۱۹۳۲ء کو بمقام اجمیر مقدس ہوئی۔ بچپن ہی کے زمانےمیں والدہ ماجدہ داغِ مفارقت دےکر رخصت ہوگئیں مولانا سید احمد علی کی پرورش ان کی ہمشیرہ اور ان کے والدِ گرامی الحاج مولانا سید حسین علی رضوی نےکی۔ سید صاحب کی پیدائش کے وقت ان کے والد عمر رسیدہ ہوچکےتھے۔ سید صاحب کی والدہ مولانا سید حسین علی رضوی اجمیری کی تیسری شریک حیات تھیں۔
خاندانی حالات
مولانا سید احمد علی اجمیری گردیزی سید ہیں۔ ان کا شجرۂ نسب مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا سید حسین علی کے والد کا سایۂ شفقت بچپن میں قریب چودہ سال کی عمر میں اٹھ گیا تھا۔ حضرت مولانا سید حسین علی رضوی موضع ببر ضلع اجمیر مقدس کے جاگیردار تھے۔ جاگیر مولانا سید حسین علی کے نانا سے وارثت میں ملی تھی۔چونکہ مولانا سید حسین علی اپنے نانا کے اکلوتے نواسے تھے، نواب جاؤرہ ریاست مولانا سید حسین علی کو اپنا وکیل، دعا گو آستانۂ غریب نواس رحمۃ اللہ علیہ مانتے تھے، یہ حق بھی ان کو اپنی ننہال سے ملا تھا۔ نواب جاؤرہ مولانا سید حسین علی کی اچھی قدرو منزل تھے، یہ حق بھی ان کو اپنی ننہال سےم لا تھا۔ نواب جاؤرہ مولانا سید حسین علی کی اچھی قدرو منزلت کرتے تھے، تحائف و نذر پیش کرتے اور سال میں ایک بار اپنی ریاست میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دیتے ۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ نواب جاؤرہ نے ایک ہاتھی نذر کیا۔ اسی پر لوگ وکیل جاورہ کہنے لگے۔
آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے بیعت تھے۔ نیز امام احمد رضا بریلوی نے سلسلۂ چشتیہ میں آپ کو اجازت وخلافت سے بھی نوازا تھا۔
تسمیہ خوانی
جب مولانا سید احمد علی کی عمر چار سال کی ہوئی تو والد ماجد نے بسم اللہ خوانی کی تقریب منعقد کرائی، اور حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا بریلوی کو دعوت دی۔ مولانا محمد حامد رضا بریلوی نے شرکت بھی فرمائی، اور سید صاحب کی رسم بسم اللہ بھی ادا کی۔ اور دعاؤں سے نوازا۔
تعلیم وتربیت
مولانا سید احمد علی نے ابتدائی تعلیم سے لے کر فراغت تک ایک ہی مدرسہ دار العلوم عثمانیہ معینیہ درگاہِ معلیٰ اجمیر مقدس میں حاصل کی۔ ۳؍رجب المرجب ۱۳۶۶ھ؍۲۴؍مئی کو دارالعلوم عثمانیہ معینیہ اجمیر میں سندِ فراغت سے سر فراز کیے گئے۔
اساتذۂ کرام
1. صدر الشریعہ حضرت مولانا محمد امجد علی رضوی اعظمی
2. حضرت مولانا غلام معین الدین
3. حضرت مولانا محمد شریف
4. حضرت مولانا مولوی نصیر احمد
5. حضرت مولانا عبدالباری معینی
6. حضرت مولانا خیرات الحسن
امتحانات
حضرت مولانا سید احمد علی نے الٰہ آباد بورڈ، علی گڑھ سے امتحانات پاس کیے ۱۹۴۷ء میں مولوی، ۱۹۴۸ء میں ادیب کامل، ۱۹۵۰ء میں منشی اور خوش نویسی کے امتحانات دیئے۔
خدمات
مولانا سید احمد علی نے جب یہ محسوس کیا کہ اجمیر جیسی مقدس جگہ میں کوئی لائبریری نہیں ہے، اور علم کی روشنی سے محروم ہوکر لوگ اندھیرےکی جانب راغب ہورہے ہیں تو اندرونِ درگاہ ایک حجرہ جس کا نمبر ۹۳ ہے اس کو لے کر بنام قادری چشتی رضوی دارالمطالعہ ۱۹۷۹ء میں قائم فرمایا جس سے آج لاکھوں زائرین و مقامی لوگ مطالعہ سے مستفیض ہورہے ہیں۔ اس دار المطالعہ میں تقریباً دو ہزار کتابیں موجود ہیں۔ دار المطالعہ کو قائم کرنے میں سید صاحب کو بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ناظم آستانۂ خواجہ نے تعصب کی بنا پر حجرہ خالی کرنے کا مقدمہ بھی دائر کردیا اور طرح طرح دشواریاں سامنے آتی گئیں۔ حضرت سید صاحب نے جم مقابلہ کیا۔ وہ مقدمہ آج بھی چل رہا ہے جلسے وغیرہ اور علماءِ اہلِ سنت کی تقاریر بھی اسی میں ہوتی ہے۔
اصلاحی کمیٹی
چونکہ اجمیر مقدس میں خاص کر آستانہ شریف پر اکثر وہابی ودیوبندی اور شیعہ وغیرہ رہتے ہیں اور یہ لوگ زائرین کو اپنا مسلک بناتے ہیں، ان میں سے کچھ زائرین ایسے بھی ہوتے ہیں جو اُن کےاثر کو قبول کر کے واپس جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے نئے نئے حربے استعمال کرتے ہیں گمراہیت پھیلارہے ہیں۔ ان سب وجوہات کی بنا پر مولانا سید احمد علی نے ایک کمیٹی بنام ‘‘اصلاحی کمیٹی’’ تشکیل دی تاکہ جو مفاد پرست غیر قومیں اپنا جال پھیلارہی ہیں ان کا علمی اور اصلاحی ہر طریقے سے ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے، ان کےمکرو فریقب کا پردہ چاک کیا جاسکے، مذہبِ اہلِ سنت و جماعت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی خوب سے خوب تراشعات کی جاسک۔
اب مولانا سید احمد علی ایک مدرسہ کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہیں جس کے لیےاپنے دولت خانے کی سہ منزلہ عمارت جو اعلیٰ حضرت منزل کےنام سے موسوم ہے اس کو بھی وقف کردیا ہے۔ چونکہ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ تنزلی کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اس کا سارا اسٹاف بد عقیدہ لوگوں سے بھرا ہوا ہے، ناظم مدرسہ بھی بد مذہب ہے اور مدرسین بھی اس کے ہم خیال ہیں، اس مدرسہ میں کوئی سہولت قیام و طعام کے لیے نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ سید صاحب کا ہاتھ کسی عالم نے نہیں بٹایا جس کی وجہ سے مدرسہ کے قیام کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہناسکے۔ اجمیر مقدس میں مدرسہ کی بہت شدید ضرورت ہے۔ علماء اس بات پر توجہ فرمائیں۔
یتیم خانہ میں آپ کا کردار
اجمیر شریف میں ایک قدیمی یتیم خانہ تھا جو بدنیت اور بد عقیدہ لوگوں میں کھلونا بنا ہوا تھا۔ یہاں کہ ہمدرد مسلمانوں نے جب یتیم خانے کو بالکل تباہ اور برباد دیکھا اور یتیم خانے کے بچوں کو بھکاریوں کی طرح بھیک مانگتے دیکھا اور یتیم خانے کے بجٹ کو بالکل خالی دیکھا تو ملت کا درد رکھنے والے افراد نے مولانا سید احمد علی رضوی کو اس ادارے کا صدر بننے پر اصرار کیا اور جبراً سید صاحب کو صدر منتخب کردیا گیا۔
جس وقت سید صاحب صدر منتخب ہوئے اس وقت یتیم خانے کی بہت بُری حالت تھی اور یتیم خانہ کئی ہزار روپے کا مقروض ہوچکا تھا۔ سید احمد علی نے اپنے جانی و مالی تعاون سے اس یتیم خانے کو روز افزوں ترقی بخشی اور اپنے حلقۂ احباب واقارب کو اس طرف راغب کر کے اس ادارے کا تعاون کیا، کئی لاکھ روپے کا بجٹ یتیم خانے کے نام بینک میں جمع کرایا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ کچھ شر پسندوں اور حریفوں نے پیچھا کرلیا جب سید صاحب کی طبیعت علیل ہوئی، موقع غنیمت جان کر اس ادارے میں گھس گئے اور ادارے کو برباد کرنے میں کوشاں رہے۔ اسی بنا پر سید احمد علی نے استعفیٰ دےدیا اور اس سے بری ہوگئے۔ آٹھ سال تک یتیم خانے کے عروج کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرڈالا مگر ان لالچیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ جب تک مولانا سید احمد علی ادارہ کے صدر رہے اس وقت تک یتیم خانہ عروج کی منازل طے کرتا گیا اور جب اس سے مستعفی ہوئے، تنزلی کی صور ت اختیار کر گیا۔
بیعت وخلافت
مولانا سید احمد علی ۷؍رجب المرجب ۱۳۹۳ھ میں حضور مفتئ اعظم بریلوی نور اللہ مرقدہٗ کے دستِ حق پر بیعت ہوئے اور پھر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد مرشِ برحق نے ۱۸؍جب المرجب ۱۳۹۶ھ میں اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔
حضور مفتئ اعظم نوری علیہ الرحمۃ کے بعد دیگر مشائخ کبار اور علماء ِ کرام نے خلافت عطا فرمائی اور وکالت نامہ تحریر فرمایا۔ 1.محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد علیہ الرحمۃ 2.مجاہدِ ملت حضرت مولانا حبیب الرحمٰن رئیس اعظم اڑیسہ 3. مولانا مفتی رجب علی رضوی نانپاروی مدظلہٗ۔
زیارت وحج
جب جذبۂ عشق کی تپش پڑھ گئی تو دیارِ حبیبﷺ کی زیارت کے لیے سفر کیا۔ یک اگست ۱۹۸۲ء کو حج کے فرائض انجام دیئے۔
رضا منزل اور علماء کا قیام
جب بھی حضور مفتئ اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان اجمیر شریف تشریف لے جاتے تو رضا منزل میں ضرور قیام فرماتے۔ سرکار مفتی اعظم ہند قُدِّسَ سِرُّہٗ کے دور سے آج تک سنی علماء جب حاضر آستانہ ہوتے تو رضا منزل میں قیام کرتے ہیں۔
عقدِ مسنون
مولانا سید احمد علی کا عقدِ مسنون ۲۸؍شعبان المعظم ۱۳۷۴ھ؍ ۲۲؍ اپریل ۱۹۵۵ء کو شہر اجمیر شریف کے سید گھرانے میں ہوا۔ حضرت سید صاحب کے اس وقت سات بچے ہیں جن میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔
1. پیر زادہ سید اسد علی رضوی چشتی
2. پیر زادہ سید محمد فرقان علی رضوی چشتی
3. پیر زادہ سید محمد عرفان علی رضوی چشتی
4. قاضی سید محمد آسف علی رضوی چشتی
5. سیدہ شافیہ بی بی رضویہ
6. سیدہ میمونہ فاطمہ رضویہ
7. سیدہ زینب بی بی رضویہ [1]
[1] ۔ مکتوب گرامی اسحاج سید احمد علی رضوی چشتی اجمیری بنام راقم محررہ زی الحجہ ۱۳۰۹ھ؍ ۱۹۸۹ء ۱۲؍ رضوی غفرلہٗ