صوفیوں کے جمال متقیوں کے شرف خواجہ تاج الملۃ والدین رحمۃ اللہ علیہ وادری زہد و تقویٰ کی مجسم تصویر تھے۔ آپ شروع شروع میں دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے تھے لیکن جب سعادت ابدی نصیب ہوئی تو آپ نے اس ذلت و خواری کو یک لخت ترک کر دیا اور سلطان المشائخ کی دولت ارادت سے مشرف و ممتاز ہوئے۔ سلطان المشائخ کی الفت و محبت آپ کے دل مبارک میں اس طرح متمکن اور جاگیر ہوئی کہ تمام دنیاوی تعلقات یکبارگی قطع کر دئیے اور فقر و مجاہدہ اور فاقہ کو اپنی دولت و ثروت جان لیا شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
بپائے سر در افتادہ چو لالۂ و گل
کہ او شمائل قد نگار من دارد
(سرو کے قدموں میں مثال لالۂ و کل پڑا ہوا ہوں کہ وہ میرے نگار سے قد میں مماثلت رکھتا ہے۔)
اے سرو بتو شادم شکلت بفلان ماند
اے گل زتو خوشنو دم تو بوے کسے داری
(اے سرو میں تجھے دیکھ کر شاد کام ہوں کہ تیری شکل (قد کی) کسی سے ملتی ہوئی ہے۔ اے پھول میں تجھ سے خوش ہوں کہ تجھ میں کسی (محبوب) کی خوشبو ہے۔)
جناب سلطان المشائخ کی الفت و محبت میں آپ کی یہ کیفیت ہوگئی تھی اور محبت کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ جو شخص آپ کے سامنے سلطان المشائخ کا نام لیتا تو فوراً آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں جاری ہوجاتیں۔ آپ سماع میں غلو تمام رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ہی سریع البکا تھے یعنی آپ کو رونا بہت جلد آتا تھا اور عاشقانہ رقص کیا کرتے تھے حتی کہ آپ کے ذوق سے حاضرین مجلس کے دلوں کو راحت پہنچتی تھی۔ حالات سماع میں بیش قیمت خلعت قوالوں کو عنایت کرتے اور عالی ہمتی اورترک و تجرید کی طرف نسبت رکھتے تھے۔ آخر الامر دیوگیر سے واپس آتے وقت سِتہ میں کھتول کے پڑاؤ میں بیمار ہوگئے۔ جب نزع کا وقت ہوا تو آپ نے نہایت دلربا تبسم کیا۔ جیسا کہ خواجہ سنائی نے اس واقعہ کو نظم کے پیرایہ میں یوں ادا کیا ہے۔
عاشقی رایکے فسردہ بدید گفت اور ابو قت جان دادن گفت خوبان چو پردہ برگیر ند
|
|
کوھمی مرد خوش ھمی خندید چیست این خندۂ خوش استادن عاشقان پیش شان چنیں میرند
|
(کسی نے عاشق کو مرتے ہوئے ہنستے دیکھا اور اس سے پوچھا کہ دم توڑتے ہوئے کون سا موقع ہنسنے کا ہے اس نے جواب دیا کہ معشقوق جب رخ سے پردہ اٹھاتے ہیں عاشق اسی طرح ان کے سامنے جان سے جاتے ہیں۔)
الغرض جب آپ نے دار فنا سے بیت القرار کی طرف رحلت کی تو آپ کا جنازہ شہر میں لایا گیا اور سلطان المشائخ کے خطیرہ میں یاروں کے چبوترہ میں دفن کئے گئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔