سیرتِ خوب، اہل دلوں کے نزدیک محبوب، خواجہ یعقوب ہیں جو شیخ شیوخ العالم کے سب فرزندوں میں چھوٹے اور فیاضی و سخاوت میں مشہور تھے آپ کی کرامتیں آشکار تھیں اور دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ آپ اہل ملامت کی راہ چلتے اور اس کے مخالف خلق پر ظاہر کرتے مشغول بحق رہتے۔ طبع فیاض اور لطافت تام رکھتے تھے۔ کاتبِ حروف نے اپنے والد بزرگوار سید محمد کرمانی سے سنا ہے۔ فرماتے تھے کہ میں اکثر اوقات سفر و حضر میں شیخ زادہ عالم صاحبزادہ داریں خواجہ یعقوب کا مصاحب رہتا تھا بہت کم ایسے موقع پیش آئے ہوں گے جن میں کسی ضرورت خاص کی وجہ سے آپ کے ہمراہ نہ رہا ہوں گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خطہ اودھ میں آپ کے ساتھ گیا۔ جب اودھ میں پہنچے تو ایک سرا میں اترے۔ شیخ زادے مجھے سرا میں چھوڑ کر شہر کی سیر و تماشے کے لیے باہر تشریف لے گئے ایک پہر رات گزر چکی تھی لیکن آپ سرا میں تشریف نہیں لائے اور کسی جگہ عیش میں مشغول ہوگئے۔ اسی رات اودھ کے صوبہ کو جو ایک بزرگ و معظم خان تھا درد شکم عارض ہوا اور ہوا بھی اس سختی کے ساتھ کہ ایک ساعت درد کی شدت سے قرار نہ تھا۔ ہر چند کہ لوگوں نے علاج کیا شفا میسر نہ ہوئی۔ اب علاج و دوا سے تجاوز کر کے تعویز و دعاؤں کی نوبت پہنچی اسی ثناء میں ایک شخص بول اٹھا کہ حضرت شیخ شیوخ العالم کے فرزند رشید صاحبزادے خواجہ یعقوب کو میں نے دیکھا کہ عصر کی نماز کے وقت شہر اودھ میں تشریف لائے ہیں اگر لوگ ان سے ملیں تو قوی امید ہے کہ شیخ زادہ عالم کی دعا کی برکت سے یہ بیماری صحت سے بدل جائے اب آدھی رات گزر گئی تھی خان نے فوراً اپنے آدمیوں کو شیخ زادہ کی طلب میں ہر طرف روانہ کیا اور لوگ تلاش و جستجو کرتے ہوئے سرا میں پہنچے جہان ہم فروکش تھے۔ خان کے بھیجے ہوئے آدمی میرے پاس آکر کہنے لگے کہ شیخ زادے کہاں ہیں خان صاحب بلاتے ہیں۔ میں نے کہا عصر کی نماز کے وقت سے جدا ہوکر شہر میں پھرنے گئے ہیں اور اس وقت تک تشریف نہیں لائے وہ لوگ مایوس و نا امید ہوکر سرا سے لوٹے اور شہر میں جا بجا تلاش کرنا شروع کردیا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک مقام پایا جہاں خواجہ یعقوب عشرت میں مشغول تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ سوتے ہیں۔ نہایت ادب و آہستگی سے جگایا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو لوگوں نے بیان کیا کہ آپ کو خان صاحب بلاتے ہیں۔ خواجہ یعقوب نے مسکرا کر فرمایا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس خرچ تُھڑ گیا تھا اور اس وقت میں اسی فکر میں سوتا تھا کہ تم لوگ آپہنچے۔ یہ کہہ کر آپ اٹھے اور ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ جب خان کے مکان پر پہنچے دیکھا کہ درد کی شدت و سختی کی وجہ سے چار پائی سے زمین پر اور زمین سے چار پائی پر تڑپ رہا ہے اور ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ہے۔ آپ بیمار کی چار پائی کے پاس بیٹھے اور اپنی دو انگلیاں اس کے پیٹ پر رکھ کر کچھ پڑھا اس وقت پیٹ کا درد جاتا رہا۔ خان اٹھا اور شیخ زادہ کے قدموں میں گر پڑا۔ خزانچی کو حکم دیا کہ روپے کی ایک تھیلی اور فاخرہ خلعت شیخ زادہ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ فوراً تعمیل ہوئی اور خواجہ یعقوب روپے کی تھیلی اور کپڑے لے کر وہاں سے لوٹے نقد روپوں میں سے کچھ خان کے دربانوں اور پردہ داروں کو عطا فرمایا اور باقی ساتھ لے کر سرا میں تشریف لائے۔ انجام کار ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب قصبہ امروہہ کے قریب پہنچے تو اثنائے راہ میں اس بزرگ زادہ کو مردانِ غیب لے گئے اور غائب کر دیا۔