احمد بن موسیٰ الشہیر بالخیالی: شمس الدین لقب تھا،مبانی علوم کے اپنے باپ سے پڑھے،پھر مولیٰ خضر بیگ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے استفادہ کیا اور مدرسہ سلطانیہ بروسا کے مدرس بنے،بعدہٗ بعض مدارس کی تدریس آپ کو تفویض ہوئی۔جب تاجد الدین ابراہیم المعروف بہ ابن الخطیب والد خطیب زادہ فوت ہوئے تو وزیر محمود پادشاہ نے سلطان محمد خاں سے آپ کے لیے سفارش کی کہ ان کو مدرسہ ازنیق کی تدریس کا کام دیا جائے،بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ کیا خیالی وہ شخص نہیں ہے جس نے شرح عقائد پر حواشی لکھے ہیں اور تیرا نام اس میں لکھا ہے؟ وزیر نے کہا کہ ہاں وہی شخص ہے۔پس بادشاہ نے کہا کہ وہ ضرور اس مدرسہ کا مستحق ہے لیکن خیالی نے ان دنوں واسطے حج کے تیاری کی ہوئی تھی۔پس جب یہ قسططنیہ میں آئے تو وزیر نے ان کو اس حال سے اطلاع دی انہوں نے فرمایا کہ اگر تو مجھ کو اپنی وزارت اور بادشاہ اپنی سلطنت دے دے تو بھی میں اس سفر کو نہ چھوڑوں گا۔پس آپ حج کو چلے گئے اور جب حج کر کے واپس آئے تو وہاں کے مدرس بنے لیکن تھوڑے ہی دنوں میں ۳۳سال کی عرم میں ۸۷۰ھ میں اس دار فانی سے انتال کر گئے۔’’خوردہ دان‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
کہتے ہیں کہ آپ برے نحیف البدن تھے یہاں تک کہ آپ کی انگشت سبابہ اور انگوٹھے کے حلقہ میں آپ کا ہاتھ بازو تک آجاتا تھا۔رات دن میں صرف ایک ہی دفعہ طعام کھایا کرتے تھے اور ہمیشہ علم و عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ مولیٰ غیاث الدین المعروف بہ پاشا چلپی اور کمال الدین قرہ کمال وغیرہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔شرح عقائد نسفی پر آپ نے نہایت عمدہ اور مختصر حواشی تحریر کیے جو متداول بین الدرس والتدریس ہیں لیکن بعض مواقع پر اس وقت کو کام فرمایا ہے کہ بڑے بڑے علماء فضلاء اس کے حل کرنے میں حیران رہ جاتے ہیں اس لیے ان حواشی کا حاشیہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی نے ایسا عمدہ لکھا ہے کہ تمام معضلات و مشکلات کو حل کر کے طلباء کے لیے آسان کردیا چنانچہ اس موقع پر کسی نے یہ کیا خوب کہا ہے ؎
خیالات خیالی بس عظیم است برائے حل او عبد الحکیم است
علاوہ اس کے اوائل شرح تجریدپر بھی حواشی تصنیف کیے اور اپنے استاد مولیٰ خضر بیگ کی کتاب نظم عقائد کی شرح کی۔
(حدائق الحنفیہ)