خواجہ ایوب قریشی قدس سرہ
خواجہ ایوب قریشی قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
صاحب تصرف اور صاحب کشف کرامات تھے۔ زہدو ورع تقویٰ میں جامع الکمالات تھے۔ شریعت میں عالم دین تھے۔ حقیقت میں کاشف اسرار تھے۔ مخزن امور ہمہ دانی۔ اور عالمِ علوم ربانی تھے افضل العلماء اور اکرام الفقہا تھے۔ صاحب تصنیف تھے۔ آپ کی مشہور کتابیں مخزن عشق شرح مثنوی مولانا روم شرح ایوب سے مشہور تھے۔ مقبول عوام و خواص ہوئی طریقہ عالیہ سہروردیہ میں حضرت مفتی حافظ محمد تقی لاہوری قدس سرہ کے مرید اور شاگرد تھے۔ آپ مولانا نقی خلف الرشید مفتی محمد تقی کے داماد تھے آپ کو سلسلہ قادریہ اعظمیہ سے کمال حاصل تھا۔ اور کاملان وقت تھے۔
یاد رہے کہ حافظ محمد تقی قدس سرہ خواجہ ایوب قریشی کے پیر و استاد تھے اور خواجہ ایوب راقم السطور (مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ) کے جَدّ پنجم تھے۔ ہمارا سلسلہ آبائی حضرت شیخ الاسلام بہاؤالدین ذکریا ملتانی سے یوں جا ملتا ہے۔ احقر غلام سرور بن مفتی غلام محمد قریشی بن مفتی حق آگاہ رحیم اللہ بن حافظ محمد رحمت اللہ بن مفتی حافظ محمد تقی۔ بن مولانا کمال الدین بن مفتی عبدالسمیع بن مولانا عتیق اللہ بن مولانا برہان الدین بن مفتی محمد محمود بن شیخ الاسلام عبدالسلام مفتی و مدرس لاہور بن شیخ عنایت اللہ بن مولانا کمال الدین بن شیخ مخدوم المشہور میاں کلاں (جو شہر ملتان سے دہلی کے بادشاہ کے حکم پر ہندوستان آئے اور لاہور میں تدریس علوم دینیہ اور فتوی نویسی پر مقرر ہوئے) بن شیخ جمعوں بن شیخ قطب الدین بن شیخ شہاب الدین بن شیخ الاسلام شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی قدس سرہم العزیز۔
یاد رہے کہ راقم کے یہ بزرگ اگرچہ ظاہری علوم شریعت میں یگانہ روزگار تھے وہ واعظ مفتی اور مدرس کی حیثیت سے دینی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بزرگ سلسلہ سہروردیہ میں بزرگان سلسلہ عالیہ کے قدم بہ قدم چل کر کمالات روحانی کو بھی حاصل کرتے رہے ہیں جب حضرت میاں کلاں لاہور میں تشریف لائے اور لاہور کے محلہ علا دل خان لوہانی میں قیام پذیر ہوئے۔ اور سفید زمین خرید کر کوٹلی مفتیاں کے نام سے ایک بستی آباد کی یہ احقر بھی اپنے بھائی حافظ غلام محمد اورعَم بزرگوار مفتی غلام رسول اور مفتی غلام محی الدین (جو میرے چچا زاد بھائی تھے) کے ساتھ اسی کوٹلی مفتیاں میں قیام پذیر رہا ہے خواجہ ایوب نے مولانا محمد تقی سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ اور شرف فرزندی سے ممتاز ہوئے تو دنیا کے علایٔق کو چھوڑ کر زہدو ریاضت اختیار کرلی۔ اور ساری عمر عزیز اسی طرح گذار دی۔ آپ اکثر اوقات مولانا روم کی مثنوی پڑھنے میں مشغول رہتے تھے۔
ایک دفعہ ایک شخص حضرت خواجہ ایّوب سے مثنوی پڑھ رہا تھا۔ مثنوی مولانا روم کے بعض اشعار جو حقائق و دقایٔق پر مشتمل تھے۔ اس کی سمجھ میں نہ آتے تھے اور بار بار تکرار کرتا تھا آخر تنگ آکر بلا حصول معانی حضرت خواجہ ایوب قدس سرہ کی مجلس سے چلا گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کے حضرت مولانا جلال الدین رومی بہ نفس نفیس تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں یاد رکھو! خواجہ ایوب میرے اویسی ہیں میری ذات سے انہیں روحانی فیض ملا ہے میرے اشعار کے جو معانی وہ بیان کرتے رہے ہیں وہی صحیح ہیں۔ چنانچہ دوسری صبح وہ شخص حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ غدر خواہی کی اور مرید ہوگیا۔
خواجہ ایوب قدس سرہ شرح مثنوی میں فرماتے ہیں کہ مجھے مثنوی مولانا روم کے لکھنے کا ذوق پیدا ہوا اور دل میں ایک تڑپ پیدا ہوئی کہ بحرِ زخّار کی شرح ضرور لکھنی چاہیئے تو مجھے اپنی بے بضباعتی اور کم علمی کا خیال آیا۔ اور مجھے جرأت نہ ہوئی تھی کہ اس عظیم کام کا آغاز کروں میں نے مثنوی اٹھائی اور اس کام کے لیے مثنوی سے راہنمائی حاصل کرنا چاہی جو صفحہ کھولا تو اس کا پہلا شعر یہ تھا۔
اے ضیاء الحق حسام الدین بیا |
|
دے سفال روح سلطان ہدا |
|
اِس فال کے بعد میں نے ہمت کی اور مصمم ارادہ کرنے کے بعد شرح مثنوی لکھنے میں بیٹھ گیا۔ چنانچہ یہ کتاب ۱۰۲۰ھ یہ مکمل شرح لکھ ڈالی اور اس اختتام شرح پر یہ قطعہ لکھا۔
یافت شرح مثنوی مولوی |
|
خلقت اتمام از لطف خدا |
|
خواجہ ایوب قریشی بروز جمعرات یکم ماہ جمادی الثانی ۱۱۵۵ھ کو فوت ہوئے آپ کا مزار لاہور میں بی بی حاج اور بی بی تاج کے احاطہ قبرستان میں واقعہ ہے۔
جناب خواجہ ایوب مسعود |
|
چو از دنیا بجنت گشت موصول |
|
شیخ اولیاء ایوب مقبول |
خواجہ ایوب پیر باکمال |
مہتاب بہشت |
شیخ حق کامل ولی |
۱۱۵۵ھ |
۱۱۵۵ھ |
۱۱۵۵ھ |
۱۱۵۵ھ |
آپ کے شاگردوں میں سے ایک شخص میر محمد علی مرحوم نے آپ کی وفات پر قطعہ تاریخ لکھا تھا۔ جوتبرکاً درج کیا جاتا ہے۔
ز دردِ انتقال شیخ ایّوب |
|
کہ گشتہ روح او از وصل حق شاد |
(خذینۃ الاصفیاء)