خواجہ شمس الدین حافظ شیزازی قدس سرہٗ
خواجہ شمس الدین حافظ شیزازی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آپ کا مسکن خطۂ پاک شیراز تھا لسّانِ الغیب اور ترجمان الاسرار کے القاب سے مشہور تھے آپ کی زبان حق ترجمان سے اسرار غیبیہ کا ظہور ہوتا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن جامی لکھتے ہیں کہ آپ کے پیر و مرشد کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ اور سلسلہ تصوف میں کسی طائفہ صوفیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ نے جس انداز سے صوفیانہ گفتگو فرمائی ہے اسے کسی سلسلہ کے بزرگ کو اختلاف نہیں ہوسکا صوفیہ کے تمام سلسلوں کے بزرگان دین متفق ہیں کہ حافظ شیرازی کے پائے کا دیوان آج تک کسی صوفی کے قلم نے مرتب نہیں کیا دنیا بھر کے مفکرین آپ کو صاحب کشف و کرامات مانتے ہیں کوئی شخص حالات آئندہ سے واقف ہونا چاہتا ہو تو اسے حضرت حافظ پر فاتحہ پڑھ کر اور پوری توجہ اور عقیدت سے دیوان حافظ کھولے سب سے پہلے جو شعر سامنے آئے اس سے فال برآمد ہوگی۔
شہزادہ داراہ شکوہ اپنی کتاب سکینتہ الاولیاء میں تحریر فرماتے ہیں کہ جہانگیر بادشاہ اپنے والد کی آزردگی سے ڈر کر دربار شاہی سے دُور ہوگیا تھا اور الہ آباد میں رہنے لگا۔ وہ ایک دن سوچنے لگا کہ اسے اپنے والد کے پاس حاضر ہونا چاہیے یا نہیں ایک دن اس نے حضرت خواجہ حافظ کا دیوان منگوایا اور جو صفحہ کھولا اس پر یہ غزل نظر آئی۔
چرانہ درپے عزم و یار خود باشتم |
|
چرانہ خاک رۂِ کوئے یار خود باشتم |
جہانگیریہ فال دیکھتے ہی اٹھا۔ اور بلا تردد اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس واقعہ سے چھ ماہ بعد اکبر بادشاہ کا انتقال ہوگیا اور جہانگیر بادشاہ بن گیا۔ حضرت داراشکوہ لکھتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کو اس غزل کے حاشیہ پر دیوان حافظ میں جہانگیر کے قلم سے لکھا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
ملّا عبدالقادر بدایونی نے لکھا ہے کہ حضرت حافظ شیرازی خواجہ بہاءالدین نقشبند قدس سرہٗ کے مرید تھے اکثر صوفیاء نقشبند فرمایا کرتے تھے۔ کہ خواجہ شیرازی کے دیوان سے نسبت نقشبندیہ کی خوشبو آتی ہے۔
حضرت خواجہ حافظ کی وفات صاحب نفحات الانس نے ۷۹۲ھ لکھی ہے۔
لسان الغیب حافظ پیر شیراز |
|
ز دنیا رفت و شد سردار جنت |
|
مخبرالواصلین کے مولّف نے آپ کو ان اشعار سے یاد کیا ہے۔ اور انہوں نے آپ کا سنِ وفات ۷۹۱ھ لکھا ہے۔
چو شمس الدین حافظ پیر شیراز [۱] |
|
بحنت رفت زین دنیائے پُر خار |
|
[۱۔حافظ شیرازی حیاتِ ظاہریہ سے پردہ پوش ہوئے تو آپ کا مزار مرجع خلایٔق اور مبہط انوارالہیہ بن گیا بقول پروفیسر علی نقی بہروزمی ’’مطاف اہل دل و قبلہ مرد مان صاحب نظر‘‘ رہا قبرستان میں مقام ’’مصتلی‘‘ پر آسودہ خاک ہوئے اہل محبت آج تک آپ کے مزار اور دیوان سے فال لیتے ہیں۔ دنیائے اسلام کے جن مشاہیر نے مزار پر پہنچ کر فال لی ان میں شاہ اسماعیل صنوی۔ شاہ عباس کبیر۔ آزاد خان افغان کے نام قابل ذکر ہیں ۱۱۸۷ھ میں کریم خان زند نے آپ کے مزار پر شاندار گنبد بنایا۔ سنگ مَر مَر کی تختیوں پر حافظ کی غزلیں لکھوائیں ۱۲۷۳ھ میں طماسپ حکمران فارس نے پھر مرمت کرائی۔ ۱۲۹۵ھ معتمدالدولہ فرہاد مرزا نے اضافہ کیا ۱۳۱۷ھ ارد شیریزدی نے روضہ کی تعمیر میں بڑا حصہ لیا سید علی اکبر مرحوم نے یہ کہہ کر کہ ’’یک نفر گبرقر خواجہ راساختہ است‘‘ مزار کو اکھاڑ دیا اور ۱۳۱۸ھ میں والی فارس کے شہزادہ شعاع السطنہ نے مزین الدولۃ انجنیر کے اہتمام میں از سر نو تعمیر کرایا۔ ۱۳۵ھ میں ایران کی وزارتِ تعلیم نے آقائی علی اصغر حکمت کی نگرانی میں مزار کی تزئین کی (ماخوذ از حافظ حافطیہ‘‘ دیباچہ دیوان حافظ مطبوعہ تہران ۱۳۳۴ھ)]
(خزینۃ الاصفیاء)