مصطفیٰ بن یوسف بن صالح برسوی الشہیر بخواجہ زادہ: علامہ زماں،فہامہ دوراں عالمِ نبیل،فاضل جلیل،ماہر معانی و بیان،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ تھے،پہلے محمد بن ایا تلوع سے پڑھتے رہے پھر خضر بیگ مدرس سلطانیہ واقع بروسا کی کدمت میں پہنچے اور ان سے بہت سے علوم حاصل کیے سلطان مراد خاں نے بروسا کے مدرسہ اسدیہ کی تدریس آپ کے سپرد کی اور جب سلطان محمد خاں بادشاہ ہوااور علماء نے اس کی رغبت علم کی طرف بہت دیکھی تو آپ بھی اس کے پاس گئے اور اس نے آپ کو اپنا معلم بنالیا اور آپ سے کتاب زنجانی پڑھی۔آپ نے زنجانی کی ایک عمدہ شرح تصنیف کی اور نیز کتاب تہافۃ الفلاسفہ اور حواشی شرح موقف اور حواشی شرح ہدایۃ الحکمہ تصنیف کیے۔
کہتے ہیں کہ مولیٰ عبدا لرحمٰن بن موید جب جلال الدین دوانی کی خدمت میں پہنچے تو دوانی نے فرمایا کہ آپ ہمارے لیے کیا تحفۃ لائے ہیں؟ مولیٰ عبد الرحمٰن نے کہا کہ خواجہ زادہ یہ تہافۃ الفلاسفۃ لایا ہوں۔جب دوانی نے اس کو مطالعہ کیا تو فرمایا کہ میرا بھی اراد ہ تھا کہ اس باب میں ایک کتاب للکھوں لیکن اگر میں اس کتاب کے دیکھنے سے پہلے لکھتا تو ضرور فضیحت اٹھاتا۔
کہتے ہیں کہ مولیٰ علی طوسی جب بلاد عجم کی طرف گئے تو ان کی علی قوشجی قسطنطنیہ میں آئے تو وہان کے علماء نے ان کا استقبال کیا۔اس وقت خواجہ زادہ قسطنطنیہ کے قاضی تھے،جب قوشجی نے خواجہ زادہ سے ملاقات کی اور دریا کی مدو جزر سے جو کچھ دیکھا تھا اس کا بیان کیا تو خواجہ زادہ نے مدو جزر کا سبب بیان کیا،پھر اس بحث کا تذکرہ شروع ہوا جو تیمور کے سامنے سید شریف اور تفتازانی کی ہوئی تھی۔قوشجی نے تفتازانی کو ترجیح دی۔خواجہ زادہ نے کہا کہ میں نے تحقیق کیا ہے کہ حق سید شریف کے ساتھ تھا پس جو انہوں نے لکھا تھا اس کو قو شجی نے مطالعہ کیا پھر جب قوشجی کی ملقات سلطان مراد خاں سے ہوئی تو کہا خواجہ زادہ کی عجم میں کوئی نظیر نہیں۔سلطان نے کہا کہ عرب میں بھی کوئی نہیں۔وفات آپ کی بروسا میں ۸۹۳ھ میں ہوئی۔’’مقبل اخلص‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ کے تلامذہ میں سے یوسف قراصوی اور یوسف کرماسنی اور رکن الدین محمد الشہیر بہ زیر کہ زادہ اور قطب الدین محمد بن محمد بن قاضی زادہ وغیرہم ہیں۔
(حدائق الحنفیہ)