حضرت تاج الدین سنبھلی
حضرت تاج الدین سنبھلی (تذکرہ / سوانح)
حضرت تاج الدین سنبھلی علیہ الرحمہ
شیخ تاج الدین سنبلی بھی آپ کے مخصوص خلفا ء میں سے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے آپ کو خرقۂ خلافت عطا ہوا تھا۔ حضرت خواجہ صاحب اپنے مکاتیب میں بھی آپ کو مناسب ہدایات دیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ ہم نے گذشتہ صفحات میں ان کا خلاصہ عنوان تعلیمات و ملفوظات کے آغاز میں بیان کیا ہے۔
آپ حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ سے روحانی فیض حاصل کر کے اپنے وطن سنبھل چلے گئے تھے وہاں آپ سے اس قدر روحانی فیوض ظاہر ہوئے کہ تمام لوگ آپ کے معتقد ہوگئے۔ دنیا دار پر آپ کی یہ مقبولیت دیکھ کر حسد کرنے لگے لہٰذا انھوں نے آپ کو زک دینے کےلیے ایک دوانہ فقیر ابو بکر کو آپ سے بھڑادیا۔ آپ نے اپنے روحانی اثر سے اسے سیدھا کردیا تاہم سنبھل والوں کی مخالفت سے تنگ آکر تمام حالات حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں لکھ کر بھیج دئیے۔چونکہ حضرت خواجہ صاحب کے مزاج ہیں رحمد لی وار امن پسندی کی ، اس لیے آپ نے جواب میں تحریر فرمایا :۔
‘‘فقیروں کا شیوہ نہیں ہے کہ کسی سے جھگڑا کیا جائے ، ہر کام میں اللہ تعالیٰ کے کرم پر نظر رکھنی چاہیے مکالف کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آنا اہلِ تصوف کا طریقہ ہے اگر اپنا رویہ درست ہو تو حسد کرنے والے خود نجود درست ہوجاتے ہیں۔ اس طریقہ کی باتیں جن کا تم نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے تجربہ کاری اور رحمدلی کے خلاف ہیں۔جب اولیاء اللہ تک بعض مرتبہ گناہ کبیرہ سے محفوظ نہیں رہتے تو دیوانہ ابو بکر، جو بیچارہ حصول مقصد سے محروم ہے اور چند دنوں سے راہ تصوف پر گامزن ہے کیونکر غلطی سے محفوظ و معصوم ہوسکتا ہے تمہیں ان کی طرف سے بالکل چشم پوشی کرنی چاہیے ، یہ جو کچھ تم نے کیا تمہارے دماغ کی خشکی کا نتیجہ ہے۔ سنبھل والوں کے طعن و تشنیع کے جواب کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کی سختی کے مقابل میں نرمی اور جفا کرکاری کے مقابلے میں وفاداری اختیار کرو۔
خدا کا شکر اور احسان ہے کہ اولیاء اللہ کے حصے میں ملامت آئی ہی جب میرے ساتھ ایسا کسلوک ہوتا ہے تو میں اپنے نفس کا جائزہ لیتا ہوں ۔ اگر مجھ میں کوئی برائی ہوتی ہے تو ترک کردیتا ہوں۔بلکہ اس ملامت کو ایک اشارۂ غیبی سمجھتا ہوں جو مجھے نصیحت کرتا ہے۔ اگر اہل سنبھل تمہیں برا کہتے ہیں۔ تو اس میں تمہارا نقصان کیا ہے؟انھیں تمہاری عبادت کو قبلول کرنے کا اختیار حاصل نہیں؟ لہٰذا ان کے افعال سے بے فکر ہو کر پوری توجہ کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول رہو’’[1]
حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد شیخ ماج الدین سنبلی کا دل دہلی سے گھبرا گیا۔ اپنے وطن پہنچے جب وہاں بھی دل نہ لگا توبے سرو سامنانی کی حالت میں ممالک اسلامیہ کی سیرو سیاحت کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہندوستان اور کشمیر کے اکثر علاقوں میں گھومے اس کے بعد حرمین کی زیارت کےلیے روانہ ہوئے جب آپ وہاں پہنچے تو اہلِ حرم مبارک کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے۔ شیخ تاج الدین کے بیحد معتقد ہوگئے، ان کی وجہ سے دیگر اکابر بھی آپ کے معتقد ہوگئے شیخ محمد علان ۱۰۳۱ ھ میں فوت ہوئے۔
حج سے واپس آنے کے بعد شیخ تاج الدین تھوڑے عرصے ہندوستان میں رہ کر پھر بلادِ اسلامیہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے آخر مرتبہ لبیہ اور بصرہ کے علاقوں میں بھی گئے وہاں کے عوام اور حاکم دونوں آپکے معتقد ہوگئے اور اسی طرح عرب کے علاقوں میں آپ نے نقشبندی سلسلہ رائج کیا۔
آخر زمانہ میں آپ نے تمام دنیاوی سازوسامان کو ترک کردیا تھا صرف احرام باندھتے تھے۔ صاحب زہدۃ المقات تحریر فرماتے ہیں‘‘ میرے ایک صالح رفیق نے ۱۰۳۷ ھ میں آپ کو میدان ِ عرفات میں عجیب و غریب حالت میں دیکھا آپ بالکل سخیف و ناتواں ہوگئے تھے، خط بڑھا ہوا تھا ، سراور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں سرخ اور اشکبار تھیں آپ ایک مخصوص روحانی جزبے کے ماتحت گھوم رہتے تھے اسوقت آپ نے فرمایا میرا راب ارادہ ہے کہ میں اپنے مولیٰ کے گھر کی جاروب کشی کروں اور یہیں خاک ہوجاؤں [2]چانچہ مکہ معظمہ ہی میں آپ کا انتقال ہوا۔
آپ نے نقشبندی مشائخ کے فارسی رسائل کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا تاکہ اہل عرب بھی ان سے مستفید ہوں ان میں سے ایک عربی رسالہ تعلیم و اشغال نقشبندیہ میں بھی ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنے رسالہ انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں شامل کیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرھإہ اپنی مشہور کتاب‘‘ انفاس العارفین’’ مین تحریر فرماتے ہیں‘‘ یہ بات مخفی نہ رہے کہ حضرت ایشاں (شاہ عبد الرحیم علیہ الرحمہ والد بزرگوار شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ) سلسلۂ نقشبندیہ کے شعبہ باقیہ (خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ کے طریقہ)کو سب سے زیادہ پسند فرماتے تھے آپ اس شعبہ (باقویہ )کی طرف جس قدر راغب تھے اسقدر کسی دوسرے سلسلئے کی طرف آپ مائل نہ تھے۔ آپ نے تربیت و ہدایت اسی شعبۂ (باقویہ )کے مطابق دی۔
شیخ تاج سنبھلی حضرت خواجہ (باقی باللہ)صاحب کے سب سے پہلے خلیفہ تھے ، انھوں نے آخر عمر میں مکہ معظمہ میں اقامت اختیار کرلی تھی اور وہیں مدفون ہوئے۔ اِس فقیر(شاہ ولی اللہ)نے اہل ہند کے متاخرین مشائخ میں کسی کو نہیں دیکھا کہ اہلِ مکہ اس کے معتقد شیخ تاج سے زیادہ ہوں، اہل مکہ ان کی کرامات کا حال بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے شعبۂ باقویہ کے اشغا ل و معلمولات کی توضیح میں جو بعینہ طرقیۂ نقشبندیہ ہے، افراط و تفریط کے بغیر عربی میں ایک رسالہ لکھا اور حضرتِ ایشاں (والد مرحوم )نے اس رسالہ کا ترجمہ فارسی میں کیا جو ساف صالحین کی عبارات سے ماخوذ ہےاِس فقیر (شاہ ولی اللہ)نے دونوں رسالوں کو حضرت والد مرحوم کے سامنے پڑھا ہے۔’’
[1] زہدۃ المقاما تص ۷۳، ۷۴۔
[2] زہدۃ المقامات ص ۷۵، ۷۷
(حیات باقی)