حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے اکابر مریدوں اور خلیفوں میں سے تھے۔ اصلی وطن کابل تھا۔ طلبِ خدا میں ہندوستان آکر حضرت نوشاہ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے تھے۔ ابتدا میں کچھ عرصہ عالمگیری[1] حکومت کے ملازم بھی رہے۔ پھر کلی طور پر ترکِ علائق اختیار کرلی۔ صاحبِ جزب و سکر اور عشق و محبت تھے۔ طبیعت میں بڑا سوز و گداز تھا۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی فرماتے ہیں کہ خواجہ فضیل صاحب کابل میں ’’وصی‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ جس فاسق و فاجر پر حالتِ جزب و سُکر میں نظر پڑجاتی، عارفِ کامل ہوجاتا۔ کسی مردہ پر پڑتی تو زندہ ہوجاتا۔ نگاہِ غضب سے کسی طرف دیکھتے تو اس کی جان تن سے نکل جاتی، غرض آپ کے احوال و مقامات عجیب و غریب تھے۔
نقل ہے ایک مرتبہ چند کابلی و ہقانوں نے بہ نظرِ امتحان ایک زندہ شخص کو چارپائی پر ڈال کر یہ ظاہر کیا وُہ مُردہ ہے اس کا جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف چل پڑے۔ راستے میں حضرت خواجہ محمد فضیل بھی شریک جنازہ ہوگئے کہ نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے۔ جب قبرستان پہنچے تو لوگوں نے آپ کو نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے کہا اُن کی سازش یہ تھی کہ جب خواجہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوں اور تکبیر کہیں تو وہ شخص اٹھ کھڑا ہو۔ اس طرح خواجہ کی کرامت کا حال کُھل جائے گا۔ آپ نے ان لوگوں کے اصرار پر نماز پڑھانی قبول کرلی اور نمازِ جنازہ کی نیت باندھ کر نماز پڑھائی۔ لیکن وہ شخص نہ اُٹھا، سب حیران ہُوئے۔ چار پائی کے پاس جا کر دیکھا تو معلوم ہوا اس کی روح جسمِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ گریہ وزاری کے ساتھ معذرت خواہ ہوئے۔ خواجہ نے فرمایا: اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں نے مُردے ہی کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی۔ اب تِیر کمان سے نکل چُکا ہے۔
نقل ہے کابل کے ایک شاہی باغ میں پہاڑ کی ایک چٹان آگِری، وُہ اس قدر وزنی تھی کہ اٹھائے نہیں اٹھتی تھی۔ باغبان لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے چٹان ہٹانے میں مدد مانگی۔ آپ باغ میں تشریف لائے اور چٹان کے قریب کھڑے ہو کر نعرۂ الّااللہ لگایا جس سے چٹان اسی وقت پَھٹ گئی اور اس کے ٹکڑے دُور دُور جاپڑے۔ زمین خالی ہوگئی۔ حاکمِ کابل نے جب آپ کا یہ تصرّف دیکھا تو وُہ باغ ہی آپ کی نذر کردیا۔ آپ پر سُکرو استغراق کا غلبہ زیادہ رہتا تھا اس وجہ سے بحکم لاتقربواالصَّلوٰۃ ظاہر اطوار پر آپ سے فرائضِ نماز ترک ہوجاتے تھے۔ علماءِ کابل نے آپ کے خلاف فتویٰ لکھا اور بُلا کر کہا کہ آپ ترکِ نماز کے مرتکب ہوتے ہیں اس لیے ہم آپ پر شرعی حد جاری کریں گے۔ آپ نے فرمایا: بے وضو نماز جائز نہیں ہے اور میں معذور ہوں پانی میرے جسم پر رواں نہیں ہوتا اور وضو میں پانی جب تک اعضا پر رواں نہ ہو، وضو کامل نہیں ہوتا۔ علمأ نے پانی منگوایا اور آپ سے وضو کرنے کے لیے کہا۔ آپ ہاتھوں پر جتنا پانی ڈالتے وُہ خشک ہوتا چلاجاتا گویا آگ پر پڑ رہا ہے۔ علماء نے جب یہ کیفیت مشاہدہ کی تو خاموش ہوکر چلے گئے۔ خواجہ فضیل کی وفات اقوال صحیح کے مطابق ۱۱۱۱ھ یا ۱۱۱۲ھ میں ہے اور مزار گوہربار کابل میں ہے۔
خواجہ دیں فضیلِ واصلِ حق! باز فرما مکرم اخیار! |
|
شد ز دنیا چو در بہشت بریں!! |
[1]۔ یہ عالمگیر کا زمانہ تھا، شاہجہان کا عہد حکومت تھا۔
[2]۔ خواجہ فضیل کا صحیح سنِ وفات ۱۰۷۶ھ ہے اور مزار بینی حصار کابل میں ہے۔ (شریف التواریخ جلد سوم حصّہ اوّل موسوم بہ تحائف الاطہار قلمی ص ۲۶۳)۔