مخدوم بلال باغبانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
علامہ شیخ کبیر عارف باللہ مخدوم محمد بلال بن مخدوم محمد حسن بن مخدوم محمد ادریس سموں ۴ ربیع الاول ۱۸۵۶ھ/۱۶ جون۱۴۵۱ء کو لسبیلہ میں تولد ہوئے۔
مخدوم ادریس، سندھ کے مشہور و مقبول حاکم جام نظام الدین ثانی کے بھائی تھے، جس نے سندھ پر تقریباً پچاس سال حکومت کی۔ اسی دور میں مخدوم ادریس لسبیلہ (موجودہ بلوچستان) کے حاکم تھے۔ مخدوم حسن بن مخدوم ادریس اپنے والد کے بعد لسبیلہ کے حاکم ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مخدوم بلال کانسبی تعلق سندھ کے جام سمہ حکمران گھرانے سے تھا۔ مخدوم صاحب کی تاریخ ماہ سال ولادت تاریخی کب میں محفوظ نہیں۔ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی کے تحقیقی مضمون مطبوعہ مہران سالگرہ نمبر ۱۹۶۲ء میں بھی درج نہیں، نہ معلوم یہ تاریخیں میمن عبدالغفور سندھی مرحوم کو کہاں سے دستیاب ہوئیں۔ خدا بھلا کرے مولانا قاضی ہدایت اللہ مشتاق مٹیاروی کا کہ انہوں نے کسی قلمی کتاب سے مخدوم صاحب کے حالات اپنے بیاض میں نقل کئے ورنہ تاریخی کتب میں تفصیلات ندارد فقط دو تین سطروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ (راشدی)
تعلیم و تربیت:
ایام طِفلی سے آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ اسلئے حصول علم کے سلسلے میں اپنا شہر چھوڑ کر گوٹھ ٹلتی(تحصیل سیوہن شریف) پہنچے۔ جہاں اس دور میں حضرت مولانا سید نور حسین شاہ بخاری ٹھٹھوی کی دینی درسگاہ کا شُہرہ تھا اس میں داخلہ لے کر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور غالباً وہیں سے فارغ التحصیل ہوئے۔(مخدوم بلال باغبانی (سندھی)میمن عبدالغفور سندھی مطبوعہ لاڑکانہ ۱۹۸۲ء)
پروفیسر ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی لکھتے ہیں:
آپ نے ابتدائی تعلیم ٹھٹھہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم گوٹھ ٹلٹی (تحصیل سیوہن) میں مخدوم عمر سے حاصل کی۔ اور شادی بھی ٹلٹی میں کی۔
(مخدوم بلال مضمون نویس : ڈاکٹر عبدالمجید سندھی، مہران جنوری ۱۹۶۲ء سالگرہ نمبر)
مخدوم بلال علوم ظاہری میں بھی بڑا مرتبہ رکھتے تھے اور لوگ ان کے تبحُّرِ علمی سے استفادہ کرتے تھے، میر علی شاہ قانع ٹھٹھوی نے لکھا ہے:
’’ازالہ عارفان، واصل بحق در علم ظاہر سانے عظیم داشتہ (تحفہ الکرام)
میر معصوم بکھری (سکھر والے ) نے لکھا ہے:
’’دروازی تقوی وزھد شبیہ و نظیر نداشتہ در علم حدیث و تفسیر مھارت تامہ داشتہ و صاحب مقامات ارجمند بود‘‘
(تاریخ معصومی بحوالہ تذ کرہ صوفیائے سندھ)
بیعت و خلافت:
آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کبرویہ میں دستِ بیعت ہوئے لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کن بزرگ سے بیعت تھے۔ اور کبرویہ سلسلہ سندھ میں کس بزرگ کے ذریعے پہنچا۔ پیغام لطیف (کتاب ) میں ہے کہ کبریہ سلسلہ میں مخدوم صاحب کے علاوہ لواری شریف کے بزرگوں کے بڑے بھی منسلک تھے۔‘‘
(مخدوم بلال، میمن عبدالمجید سندھی، اخبار مہران سالگرہ نمبر ۱۹۶۲ئ)
اس کی وضاحت ڈاکٹر گربخشانی کے بیان سے ہوتی ہے کہ وہ لکھتے ہیں:
’’شیخ حاجی عبداللطیف متوفی ۱۱۴۹ھ (درگاہ لواری شریف کے بانی سلطان الاولیاء خواجہ محمد زمان صدیقی کے والد نے آباء و اجداد کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کو چھوڑ کر) نقشبندی طریقہ اپنایا۔‘‘ (لواری جا لال ص۳۹)
وحدت الوجود کے مبلغ ، صوفی بزرگ شاعر ہفت زبان حافظ عبدالوہاب قادری المعروف سچل سرمست علیہ الرحمہ کے بھی بڑے بزرگ سہروردی طریقت رکھتے تھے (مقالات قاسمی ص۱۳۷)
مولانا قاضی ہدایت اللہ مشتاق مٹیاروی کے ’’بیاض‘‘ (قلمی) سے صاحب ’’تذکرہ مشاہیر سندھ‘‘ نے آپ کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کبرویہ کو نقل کیا ، وہ درج ذیل ہے:
٭ حضرت مخدوم بلال
٭ حضرت شیخ دوست علی سیوہانی
٭ حضرت شیخ سید شمس الدین علی ہمدانی متوفی ۷۸۶
٭ حضرت شیخ شمس الدین مزوقانی ۶۷۷ھ
٭ حضرت شیخ ابوالمکارم علاؤالدین سمنانی ۲۲،رجب ۷۳۶ھ
٭ حضرت شیخ نور الدین عبدالرحمن اسفرائنی ۱۴ جمادی الاول ۶۹۵ھ
٭ حضرت شیخ جمال الدین احمد جوزقانی ۶۶۹ھ
٭ حضرت شیخ رضی الدین علی الغزنوی ۳ ربیع الاول ۶۴۲ھ
٭ حضرت شیخ مجدد الدین بغدادی ۶۱۷ھ
٭ حضرت شیخ نجم الدین احمد بن عمر کبریٰ خوارزمی (جو کہ تاتاریوں کی جنگ میں ۱۰، جمادی الاول ۶۱۶ھ کو شہید ہوئے۔)
یہ سلسلہ آگے جاکر امام الاولیاء حضرت شیخ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ سے جا ملتا ہے۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ ص ۶۵)
شیخ نجم الدین کبریٰ، سہروردیہ سلسلہ کے بانی حضرت شیخ ابو نجیب عبدالقاہر سہروردی قدس سرہٗ کے بڑے خلیفہ حضر ت شیخ عمار یاسر علیہ الرحمۃ سے مستفیض ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت ابو نجیب کے دوسرے خلیفہ حضرت شیخ روز بہاں کبیر مصری علیہ الرحمۃ سے بھی فیض پایا، وہ اصل میں گاذرون کے تھے لیکن قیام مصر میں تھا ۔ حضرت شیخ کبیر نے شیخ نجم الدین کو اپنا داماد بنا کر بیٹا بنایا۔ (سیرت بہاؤالدین زکریا۔ مہران سالگرہ نمبر)
شیخ نجم الدین کبری قدس سرہٗ سے ایک جہاں مستفیض ہوا ، کثیر تعداد میں مخلوق خدا نے ان سے ہدایت پائی۔ مفسر قرآن امام فخر الدین رازی صاحب ’’تفسیر کبیر‘‘ آپ کے مرید تھے اور انہوں نے بھی آپ سے فیض پایا۔
کرامت:
ایام طِفلی ہی سے آپ کو عبادت کا ذوق و شوق تھا، ہمیشہ تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے ، تذکرہ نگاروں کا بیان ہے کہ ساری عمر آپ نماز روزے میں مصروف رہے۔ ریاضتوں اور مجاہدوں کی یہ کیفیت تھی کہ رات کو آپ پانی سے بھرے ہوئے ایک بڑے طشت میں بیٹھ کر ذکر و شغل کرتے ، ذکر و شغل کی وجہ سے پانی میں ایک جو ش پیدا ہوتا اور پانی چکی کی طرح گھومنے لگتا اور پانی میں یہ جوش اس وقت تک باقی رہتا تھا تاوقتیکہ صبح کو پانی دریا میں نہ ڈال دیا جاتا۔
شہباز قلندر سے عقیدت:
حضرت مخدوم بلال گذشتہ بزرگوں سے غیر معمولی عقیدت رکھتے اور ان کے مزار پر حاضری و زیارت کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے۔ ایک بار آپ ، سلطان العارفین، شہباز ولایت، حضرت مخدوم لعل شہباز قلندر کی زیار ت کیلئے کشتی میں بیٹھ کر سیوہن تشریف لے جارہے تھے، کشتی کا ملاح جیسا کہ ان لوگوں کی عادت ہوتی ہے گالم گلوچ و خرافات بکنے میں مصروف تھا۔ لوگ اس کی یاوہ گوئی اور ہر زہ سرائی سے تنگ آکر بار بار اس کو روکتے تھے مگر وہ کسی کی نہ سنتا تھا اور برابر اپنی بکواس میں لگا ہوا تھا ،جب معاملہ حد سے بڑھا اوروہ کسی طرح خاموش نہ ہوا تو مخدوم بلال اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی ٹوپی مبارکہ ملاح کے سر پر رکھ دی ٹوپی مبارک کا سر پر رکھنا ہی تھا کہ ایک عجیب و غریب تبدیلی ملاح میں پیدا ہوئی ۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہی ملاح جو طرح طرح کی بکواس کر رہا تھا ٹوپی کے سر پر رکھتے ہی یکا یک قرآنی آیات کے معارف اور احادیث نبوی کی توضیحات کر نے لگا ، کشتی میں بیٹھنے والا ہر فرداس تبدیلی پر حیران تھا۔ یہاں تک کہ سفر پورا ہو گیا، کشتی سے اترتے وقت مخدوم صاحب نے اپنی ٹوپی اس کے سر پر سے اتار لی، ملاح کی پھر وہی حالت عود کر آئی، حسب عادت پھر وہ اپنی بک بک میں مصروف ہوگیا۔
(تحفۃ الکرام جلد۲، ص:۱۴۱، تاریخ معصومی(سندھی) ص۲۳۶ سندھی ادبی بورڈ ۱۹۵۳ء ، تذکرہ صوفیائے سندھ مؤلف اعجا زالحق قدسی)
شاعری:
تاریخی شواہد سے معلوم ہو تا ہے کہ مخدوم صاحب شاعری میں بھی ملکہ رکھتے ھتے لیلکن افسوس کہ تفصیلی حالات و شاعری محفوظ نہیں لیکن ان کی ایک رباعی صاحب مقالات الشعراء نے نقل کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دقیق نکات کو انہائی دل آویزی و دلکشی کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ فرماتے ہیں:
در راہ خدا از سر قدم باید ساخت
سرمایہ اختیار کود می باید باخت
کفر ست بخودی نمائی برون بجھاں
از خویش بروں شدہ سویس می باید تاخت
(مقالات الشعراء (فارسی)
ترجمہ: راہ خدا میں عاجزی و خاکساری اختیار کرنا چاہئے۔ اپنی مرضی اور اختیار کو ترجیح نہیں دینا چاہئے۔ خود نمائی دکھاوا کرنا اس جہاں میں (اللہ والوں کیلئے) کفر(حرام) ہے۔
اپنے نفس کی شرارت کو ختم کرکے (اصلاح نفس کے بعد) اللہ تعالیٰ کے پاس جانا چاہئیے یعنی انا کا خاتمہ، نفس کی اصلاح، نیت صاف اور عاجزی لِلّٰھیت سے جو نیک کام کئے جائیں تو اس کا اجر بھی ملے گا۔
خلفاء:
اپنے دور میں حضرت مخدوم بلال کا سندھ میں علمی و روحانی اثر تھا۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ حاکم سے لے کر عام رعایا اور تمام علماء و مشائخ آپ کی تعظیم تو توقیر کرتے تھے۔ ہزاروں لوگ آپ سے دست بیعت ہونے کا شرف رکھتے تھے۔ بے شمار انسانوں نے فیض پایا۔ آپ کو اپنے دو رمیں اس قدر شہرت تھی کہ دہلی کے مورخ مولانا حامد بن فضل اللہ جمالی دہلوی مصنف ’’سیر العارفین‘‘ آپ کی زیارت کیلئے آپ کی خدمت میں پہنچے تھے اور انہوں نے اس ملاقات کا تذکرہ خود سیر العارفین میں کیا ہے۔
(سیر العارفین مترجم، پروفیسر محمد ایوب قادری مرحوم ص۱۷۴)
جس قدر فیض عام ہوا خلفاء بھی اس قدر زیادہ ہوں گے۔ آپ کے بعض خلفاء کے اسماء گرامی معلوم ہوسکے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ حضرت مولانا سید حیدر شاہ سنائی متوفی ۹۳۷ھ درگاہ شریف حیدریہ سن اسٹیشن تحصیل سیوہن۔
۲۔ حضرت مخدوم ساہڑ لنجار: درگاہ شریف انٹر پور اسٹیشن تحصیل سیوہن شریف
مخدوم ساہڑ بہت بڑے کامل اکمل بزرگ ہوئے ہیں وہ کامل مرشد کی شناخت کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
’’میں نے سنا ہے کہ جس شخص میں تین نشانیاں ہوں ا س کے مرید ہو کر ضرور فائدہ حاصل کریں
٭ اس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے
٭ اس کی گفتگو آپ کے دل پر اثر کرے
٭ ان کی محفل سے اٹھنے کو دل نہ چاہے۔
(تحفۃ الکرام ص۵۴، مہران سالگرہ نمبر)
۳۔ عالم ربانی مخدوم رکن الدین ٹھٹھوی ۹۴۹ھ مکلی شریف ٹھٹھہ میں مزار شریف واقع ہے۔
۴۔ عارف باللہ حضرت مخدوم حسن بلالی
۵۔ حضرت مخدوم سعد عرف ساند، سکرنڈ ضلع نواب شاہ
۶۔ حضرت مخدوم ہنگورو، نزد مورو ضلع نو شہرو فیروز
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی جماعت میں سے ایک نام دستیاب ہوا ہے:
٭ مولانا قاضی الہ دتہ سیوہانی
جو کہ شہ حسن ارغون بن شہ بیگ ارغون حاکم سندھ اور ’’تاریخ معصومی‘‘ کے مصنف میر محمد معصوم شاہ بکھری بن سید صفائی کے استاد تھے ۔ (مخدوم بلال باغبانی ص۲۳، عبدالغفور سندھی)
وصال:
حضرت مخدوم بلال کی شہادت سیاسی انتقام تھا۔ مخدوم کے ابتدائی دور میں نظام الدین ثانی عرف نندو کی حکومت تھی۔ سندھ کیلئے جام ثانی کا دور امن و شانتی ، عدل و انصاف اور اشاعت علم کے حوالے سے بہترین ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ ان دنوں سندھ کی اراضی بھی وسیع تھی، بلوچستان کا کچھ حصہ، ملتان اور بہاولپور کا کچھ حصہ ، لسبیلہ اور کَچھ کا کُچھ حصہ سندھ حکومت میں شامل تھا۔ اس سے سندھ کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سنہری دو رمیں ٹھٹہ کی نئے سرے سے دوبارہ تعمیر ہوئی، علم و فضل کا دور دورہ تھا، مدارس دینیہ ترقی پذیر تھے۔ صنعت کاری کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔
ٹھٹھہ کے علاوہ بکھر، روہڑی، نصر پور، مٹیاری، دربیلو، پاٹ، باغبان، سیوہن اور سن اسلامی تہذیب اور علم و ادب کے اہم مراکز تھے۔ جام ثانی کے دور میں قندھار (افغانستان) سے شہ بیگ ارغون نے سندھ میں داخل ہو کر ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار کی۔ جام صاحب نے بہادر سپاہ پر مشتمل ایک بڑالشکر بھیج دیا۔ سیوی(ضلع سکھر) کے قلعہ کے پاس فیصلہ کن لڑائی ہوئی جس سے شہ بیگ کا بھائی قتل ہوا اور دیگر سپاہی ڈر کر بھاگ گئے۔ جام ثانی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے جام فیروز صغیر سنی میں سندھ کے حاکم ہوئے۔ صغیر سنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قریبی رشتہ دار جام صلاح الدین اقتدار حاصل کرنے کی غرض سے مختلف سازشیں بُن رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کمزور ہوگئی۔ جام ثانی کے وزیر ’’دریا خان‘‘ اپنی حکمت و دانش سے حکومت چلا رہے تھے لیکن جیسے ہی فیروز بڑے ہوئے سازشی ٹولہ نے اس کے اور دریا خان کے درمیان ناراضگی پیدا کردی جس کی وجہ سے دریا خان استعفٰی دے کر اپنی گوٹھ چلے گئے سازشی ٹولہ شہ بیگ سے ملے ہوئے تھے شاید اُنہیں کی غلط صحبت کی وجہ سے شاہ فیروز شراب و کباب کا متوالہ ہوگیا۔ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۹۲۶ھ کوٹھٹہ پر حملہ کیا یہ سن کر جام فیروز ، دریا خان آپکے پاس خود جا کر منوا کر لائے۔ دریا خان لشکر کے ساتھ میدان میں آئے لیکن کمزور حکومت کے سپاہی بھی کمزور ہو جاتے ہیں لہٰذا جام فیروز کو اپنی عیاشیوں خوش گپیوں کے سبب شکست ملی۔ (تاریخ سندھ قدوسی)
دریاں خان قتل ہوئے جام فیروز ٹھٹہ چھوڑ کر بھاگ گئے بہر حال فیروز نے سندھ کا ایک حصہ شہ بیگ کو دے کر اپنی جان بچالی۔ شہ بیگ نے قبضہ جمانے کے بعد ۱۱ محرم الحرام تا ۲۰ محرم تک ٹھٹہ میں رہ کر ٹھٹہ کو تہس نہس کیا۔ اسلامی مرکز ٹھٹہ میں قتل عام کیا اور شہریوں کو خوب لوٹا۔
(تاریخ معصومی بحوالہ مخدوم بلال سالگرہ نمبر ۱۹۶۲ئ)
افسوسناک المیہ یہ ہے کہ موجودہ پاکستان کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں انگریز سے برسوں پہلے ہماری دھرتی پر ظالمانہ قبضہ جمانے اور ڈاکوئوں کی طرح لوٹنے والے اسلامی مراکز کو تباہ کرنے والے، اسلامی تاریخی ورثہ کو جلانے والے فقط اپنے دبدبہ اور اپنی سلطنت کو وسیع دکھانے اور اپنی نفسانی غرضوں کو پورا کرنے کیخاطر مسلمان ریاستوں پرخونی حملہ کرنے والے شہروں کو تاراج کرنے والے غیر نہیں تھے بلکہ اپنے نام نہاد سرکش مسلمان حکمران ہی ہیں ان میں ایک شہ بیگ بھی تھا (راشدی)
شہ بیگ ٹھٹہ پر قبضہ کرنے کے بعد ٹلٹی پہنچا ٹلٹی میں کوئی مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن حضرت مخدوم بلال کی مساعی جمیلہ کی وجہ سے بعض لوگ لڑنے کیلئے تیار ہوگئے اور یہ رپورٹ شہ بیگ کو پہنچائی گئی ۔ (تاریخ معصومی)
اور یقینا ان باتوں نے شہ بیگ کے وجود میں آگ لگائی ہوگی۔
بہر حال بعض سامنے آنے والوں کو لشکرشہ بیگ نے بے دردی سے شہید کر دیا اور ٹلٹی قلعہ پر قبضہ جما لیا طویل اقتباس دینے کی وجہ یہ ہے کہ مخدوم بلال کی شہادت کے دوسبب سامنے آتے ہیں:
۱۔ شاہی خاندان جام صاحب سے مخدوم صاحب کی قریبی رشتہ داری
۲۔ ٹلٹی پر قبضہ کے دوران وہاں کے لڑنے والوں میں سپہ سالار حقیقت میں حضرت مخدوم تھے۔
لہٰذا شہ بیگ نے اپنے دشمن کو پہلے سخت ذہنی تکلیف دینا چاہی، اس کے بعد قتل کا منصوبہ بنایا۔ بھاری جرمانے بھی حضرت مخدوم اور ان کے خلفاء نے ادا کئے جنہیں غنڈہ ٹیکس کہا جاسکتا ہے اس کے باوجود بیگ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا بالآخر ایک روز بیگ نے درباری مولویوں سے حضرت مخدوم کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کراکے ۹۲۹ھ کو حضرت مخدوم بلال کو تیل کی چکی میں ڈال کر سخت تکلیف دے کر شہید کر وادیا۔
(تاریخ معصومی ، مخدوم بلال مہران سالگرہ نمبر ۱۹۶۲ئ)
مولانامشتاق مٹیاروی کے نوٹ بُک مطابق آپ نے یکم محرم الحرام ۹۲۹ھ/۱۵۲۲ء کو شہادت کا جام نوش کیا اور آپ کا سالانہ عرس بھی یکم محرم کو ہوتا ہے جس سے مذکورہ تاریخ کو تقویت ملتی ہے۔
آپ نے جان تو دے دی لیکن ظالم حاکم کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، اس کا درباری بننا منظور نہیں کیا، حقیقت میں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہے۔ یہی سبق تاریخ کربلا سے ملتا ہے ، جس پر ہر دور میں علمائے حق اہل سنت، مشائخ طریقت اور صوفیائے کرام نے اپنے اپنے دور میں عمل کرکے دکھایا ہے۔ اس طرح تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے۔
باغبان میں شہید ہوئے اور وہیں مدفون ہوئے لیکن اب یہ علاقہ آپ کے نام سے موسوم ہے۔ ضلع دادو کے قریب آپ کی عظیم الشان خانقاہ ہے۔ چند سال پہلے درگاہ شریف ازسر نو تعمیر کیا گیا ہے اور جامع مسجد بلال وہی ہے جو کہ ۱۳۵۶ھ/۱۹۳۸ء کو رئیس محبوب خان وگن نے اس دور میں ایک لاکھ روپے میں بنوائی تھی۔ (مخدوم بلال باغبانی) آج بھی درگاہ شریف مرجع خلائق ہے ہر وقت لوگوں کا مجمع نظر آتا ہے۔ زائرین تلاوت قرآن حکیم ذکر شریف اور درود شریف کے ورد میں مصروف ہوتے ہیں۔ کئی عرصہ تک سالانہ عرس میں فقیر راقم الحروف راشدی نے شرکت کی سعادت حاصل کی ، سالانہ عرس مبارک مسجد شریف کے وسیع و عریض صحن میں منعقد ہوتا ہے اور تمام بدعات و خرافات سے پاک ہوتا ہے۔ ساری رات مدح خوانی نعت خوانی اور علماء اہل سنت کے خطابات ہوتے ہیں۔ مثلاً مناظر اسلام مفتی عبدالرحیم سکندری، مفسر قرآن مولانا محمد ادریس ڈاہری، خطیب اہل سنت مولانا نالے مٹھو بگھیو مرحوم وغیرہ۔
مولانا مشتاق مٹیاروی (متوفی ۱۹۳۵ئ) تقریباً ستر اسی سال قبل آپ کی شان میں برزبان فارسی منقبت کہی ہے وہ درج ذیل ہے
شہنشاہ باغبان مخدوم مشفق
غریق بحر عرفان پائے تافرق
بلال ابن الحسن سلطان سمہ
بتائیدات سبحانی موفق
چوبہرہ اشنر، ما اوذیت، موھوب
نمودہ اش قتل قوم چغدہ ناحق
شدہ چغدہ، چو چغدان چغدو یران
دھو جی مع الشھداء یرزق
بعزہ ماہ عاشورا مکرم
شہادت شد نصیبش قدرت حق
چو پر سیدم زھا تف وصف سالش
بجو از لفط خوش آں خاسہ حق
اگر جوئی تو تاریخ وصالش
بجو از لفظ خوش آں خاصہ حق
ازاں منظوم شد تاریخ مذکور
کہ ارد صالح رحمت حق
توجہ فرمائیں:
آخر میں تاریخ کو درست رکھنے کی غرض سے گذارش ہے کہ درگاہ شیخ جمالی واقع مکلی ٹھٹہ کے صحن میں مدفون مخدوم بلال اور ہمارے ممدوح بزرگ مخدوم بلال باغبانی دو الگ الگ بزرگ ہیں ایک نہیں ہیں۔ مؤلف تذکرۂ صوفیائے سندھ مولانا اعجاز الحق قدوسی کو سخت مغالطہ ہوا ہے، انہوں نے دونوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)