حضرت مخدوم حافظ محمد شفیع صدیقی
حضرت مخدوم حافظ محمد شفیع صدیقی (تذکرہ / سوانح)
عاشق مصطفی ، سند الاتقیاء حضرت علامہ حافظ قاضی محمد شفیع بن قاضی احمدی صدیقی درگاہ پاٹ شریف (ضلع دادو) میں ۱۸۳۵ء میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد محترم قاضی حمدی ٹالپروں کے عہد میں پاٹ کے قاضی تھے۔
تعلیم و تربیت:
حافظ محمد شفیع صدیقی کے بچپن میں والد محترم داغ مفارقت دے گئے جس کے سبب اپنے بڑے بھائی حاجی علی گوہر صدیقی کی سفقت و نگرانی میں حصول علم کی کوشش جاری رکھی۔ ابتداء میں حضرت مخدوم علامہ قاضی فضل اللہ سیوہانی علیہ الرحمۃ (جو کہ بعد میں سیوہن شریف سے پاٹ شریف نقل مکانی کر گئے تھے) کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کئے اس کیب عد بھلجی (ضلع دادو) کے نامور مشاہیر سے تعلیم حاصل کی۔ غربت کے باوجود اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ حصول علم کے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ علم حاصل کرنے کیلئے روزانہ سات میل پیدل جاتے تھے۔ قوت حافظہ کا یہ عالم تھا پندرہ سال کی عمر میں عقلی نقلی علوم میں تحصیل کرکے دستار فضیلت حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے گوٹھے پاٹ شریف تشریف لائے۔ اور ذہانت کا یہ عالم تھا کہ اپنے گھر میں ایک سال میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔
بیعت:
بعد فراغت ، روحانیت حاصل کرنے کیلئے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت میاں محمد یوسف خنیاری شریف (ضلع نوابشاہ) کے ہاتھ پر بیعت ہوئے لیکن وہاں پیاس نہ بجھی تو عارف باللہ حضرت مخدوم بلال علیہ الرحمۃ (۹۳۱ھ) کی درگاہ شریف پر حاضری دی اور مراقبہ کیا جہان سے مرشد پاک کا پتہ چلا، پھر بکارا شہر (روس ) کے حضرت سید محمد شاہ بخاری سے ملاقات ہوئی ان کو اپنے گھر لے آئے جہاں انہوں نے ایک سال قیام فرمایا۔ آپ شاہ صاحب سے بیعت ہوئے اور ایک سال کے اندر سلوک کی تمام منازل طے کرکے اپنا مقصود پا لیا۔
درس و تدریس:
ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد پاٹ شریف میں مدرسہ قائم کیا۔ جہان زندگی بھر طلباء کو ظاہری و باطنی علوم کا درس دیا۔
تصنیف و تالیف:
آپ نے تمام مصروفیات عبادت و ریاضت کے باوجود تصنیف کی جانب بھی توجہ دی۔ اس سلسلہ میں ہمیں بعض کتابوں کا پتہ چلا ہے ان کا مختصر تعارف درض ذیل ہے۔
٭ قصیدہ بردہ شریف کا منظوم سندھی ترجمہ کیا جسے ادارہ پاٹ ہائوس حیدرآباد نے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا ہے ۔ عشق و محبت سوز و گداز اس منظوم ترجمہ کی پہچان ہے۔
٭ الم پارہ کا ترجمہ و تفسیر۔ مطبوعہ ادارہ پاٹ حیدرآباد
٭ رسالہ دربیاں اصول طریقہ تصوف (فارسی)
دعوت اسلام:
تبلیغ دین آپ کا شیوا تھا ۔ آپ کی زبان میں مالک الملک نے بلا کی تاثیر رکھی تھی اور بیان میں عشق مصطفی ﷺ کی چاشنی تھی ۔ یہی سبب ہے کہ آپ کا وعظ سن کر بے شمار انسانوں کو ہدایت نصیب ہوئی ،سیکڑوں غیر مسلموں نے آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، انگنت انسانوں نے آپ کے ہاتھ پر فسخ و فجور سے توبہ اختیار کی۔ آپ شریعت مطہرہ کے پابند، اسلام کے نامور مبلغ ، حضور علیہ السلام کے سچے ثنا ء خواں تھے۔ کلمہ حق کہنے میں بے باک واقع ہوئے وہ کسی وڈیرے ، جاگیر دار اور سر کاری افسر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
ایک باردادو کے مختار کارمول چند ہندو کو اسلام لانے کی دعوت فارسی نظم میں دی شروع کا مصرعہ اس طرح ہے:
مولچند ! بیا مسلمان شو
آنچہ کردی ازاں پشیماں شو
ایک بار پارو مل ہندو ڈپٹی کلیکٹر سب ڈویژن دادو کو اسلام کی دعوت سندھی نظم میں دی ۔ خط پڑھ کر انہیں غصہ آیا اور غصہ میں بکنے لگا اور حافظ محمد شفیع صدیقی کو بلوا کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔
آپ نے فرمایا: ’’اسلام کی نشانی دے دی ہے۔ اب چاہے آپ مسلمان ہوں یانہ ‘‘۔ہوایوں کہ جلد ہی اس کو شرمگاہ پر بھونسی نکلی علاج معالجہ سے افاقہ نہیں ہوا تو مجبور ا مسلمانوں کی طرح ختنہ کروایا۔ یعنی جوزبان مبارک سے بکلا وہ پورا ہو کر رہا۔ سبحان اللہ!(مہران سوانح نمبر )
چلہ کشی :
حسن اخلاق زہد و تقویٰ اور چلہ کشی زندگی کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ تزکیہ نفس کے لئے بڑے بڑے مجاہدے کئے ۔ ایک مرتبہ پاٹ شریف کی مسجد شریف میں گیارہ ماہ کا چلہ مکمل کیا۔ جس میں ۲۴گھنٹے میں صر ف ایک کھجور پر افطاری کرتے تھے۔ سندھ کے کئی نامور مساجد میں چلہ کشی کر کے نفس کو سخت سے سخت سزائیں دیں ۔ وہ چلہ گاہ آپ کی یاد دلاتے ہیں ۔ عامل لاثانی تھے، زبان کے سیفی تھے، جو منہ سے نکلا وہ ہو کر گذرا۔ لب مہران جامع مسجد موئے مبارک روہڑی شریف میں ایک بار دس دن کا چلہ کیا جس میں قصیدہ بردہ شریف کا منظوم سندھی ترجمہ عشق و محبت سے لبریز تحریر فرمایا۔ آپ کا دم و تعویذ بھی مشہور تھا جس کے ذریعے بھی بے شمار مریضوں کو شفا ملی ۔
شاعری :
آپ قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ کی شاعری حمد ، نعت ، مولود مناجات پر مشتمل ہے۔ ساری اسلامی و اصلاحی شاعری ہے۔ الفاظ میں روانگی و تاثیر ہے کہ الفاظ دل کے اندر اتر جاتے ہیں ۔ عربی ، فارسی ، سندھی اور سرائیکی میں آپ کا کلام دستیاب ہے۔
اولاد:
آپ نے دو شادیاں کی ان کے بطن سے دو بیٹے محمد احسان اور عبدالواحد صدیقی تولد ہوئے ۔ قریشی شفیع محمد ایم ۔ اے گورنمنٹ کالج حیدر آباد میں عربی کے پروفیسر تھے وہ آپ کے پوتے تھے۔
وصال :
حضرت مخدوم محمد شفیع صدیقی نے ۶۳ سال کی عمر میں ۱۸۹۸ئ؍۱۳۱۶ھ کو انتقال کیا۔
(ماخوذ: کتاب قصیدہ بردہ شریف مع سوانح حیات ص ۶ مطبوعہ حیدر آباد سندھ )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )