مخدوم جعفر بوبکائی
مخدوم جعفر بوبکائی (تذکرہ / سوانح)
شیخ السلام ، دسویں صدی کے مجدد مخدوم محمد جعفر بوبکائی کے والد محترم مخدوم میراں بھی عالم دین اور جامع المعقول والمنقول شخصیت کے حامل تھے ۔ کچھ عرصہ تک والی سندھ مرزا شہ حسن ارغون کو بھی تعلیم دیتے رہے ان کے علاوہ بھی بہت سے علماء نے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اپنے دورمیں مشہور و معروف تھے۔ آپ کا انتقال ۹۴۹ھ کو ہوا ۔ کسی نے ’’علامۃ وارث الانبیائ‘‘ سے سن وصال نکالا اور مزار مکلی ٹھٹھہ میں واقع ہے مخدوم صاحب کا نسبی تعلق عباسی خاندان سے ہے سلسلہ نسب یوں ہے۔
مخدوم محمد جعفر بن مخدوم میراں بن محمد یوقعب بن نور الدین بن مرزوق بن شیخ قلندر بن مروہ بن میراں بن عاری بن شیخ ابو بکر بن شیخ محمد بن شیخ ابوبکر بن سلطان خلجی خاں بن تارک بن سالار خاں بن بزدار خان، بن سلطان بن ہاشم بن حضرت عبداللہ بن حضرت عباس۔
مخدوم محمد جعفر کے ابتدائی و تفصیلی حالات سے مفقود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق آپ ۹۳۰ھ کو بوبک میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے بوبک (اسٹیشن خود تحصیل سیوہن شریف ضلع دادو) میں والد ماجد کی قائم کردہ درسگاہ سے تعلیم حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔ ۹۵۸ھ کو حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا ۔ وہاں حج و زیارت کے علاوہ شیخ محمد بن محمد بن محمد البکری شافعی مکی علیہ الرحمۃ سے مکہ مکرمہ میں علم و سند حدیث حاصل کی۔ (سندھ جا اسلامی درسگاہ ص ۱۵۰)
بیعت:
اس سلسلیمیں کوئی مصدقہ روایت نہیںملی بعض حضرات نے چار صدیوں کے بعد بلا سوچے سمجھے یہ فیصلہ دیا کہ آپ حضرت مخدوم نوح سرور کے مرید تھے یہ ان کا ذاتی خیال ہے اور قیاس آرائی ہے کوئی تاریخی روایت نہیں ہے۔ بلکہ تاریخی روایت تو وہ ہے جس کو تحفۃ الکرام نے روایت کیا ہے اور بتایا کہ آپ نے مخدوم نوح کی ایک مسئلہ میں اصلاح کی تھی۔ اس سے تو مخدوم جعفر ، مخدوم نوح کے روحانی رہنما ثابت ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بہر حال اس سلسلے میں مزید تفتیش اور تلاش کی ضرورتہے۔
علمی مقام:
آپ اپنے دور کے نابغہ روزگار شخصیت ھتے، استفادہ کیلئے ہر وقت درسگاہ طلباء سے بھری رہتی۔ تدریس ، تصنیف و تالیف میںید طولیٰ رکھتے تھے۔ علوم دینیہ کے علاوہ حکمت ، نجوم جفر اور رمل وغیرہ پر بھی دسترس رکھتے تھے۔
مؤرخ سندھ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی لکھتے ہیں:’’ مخدوم محمد جعفر بن مخدوم میراں جامع کمالات اور زبردست عالم دین ہو گزرے ہں ، مخدوم نوح سرور سہروردی قدس سرہٗ (ہالا والے) کے معاصر تھے کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت مخدوم نوح نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سیدیکھا ہے۔ یہ سن کر مخدوم جعفر نے فرمایا:معاملہ ایسا نہیں ، آپ نیا پنے رب کو ان آنکھوں سے نہین دیکھا ہے۔ اپنے خادم کو حکم فرمایئے کہ آپ پر جب یہ حالت طاری ہو تو وہ آپ کی آنکھوں کو بند کردے پھر بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کا دیدار باقی رہے تو یقین کرلیں یہ دیدار دل کی آنکھوں سے ہے۔ آپ نے جب اس نسخہ کو آزمایا تو آپپر حقیقت واضھ ہوگئی تو مخدوم جعفر کے متعلق فرمایا:
لولا جعفر لصار النوح کافرا۔
ترجمہ : ’’اگر جعفر نہ ہوتے تو نوح کافر ہو جاتے‘‘۔
(تحفۃ الکرام جلد ۳، ص ۳۷۴)
مخدوم جعفر اپنی کتاب عجالۃ الطالبین میں لکھتے ہیں : مجھے ( مخدوم جعفر کو ) عبدالقادر بن ابراہیم بن محمد مدنی نے مدینہ منورہ کے اماموں میں سے یہ روایت سنائی ہے کہ محرم الحرام ۹۵۹ ھ کو مکہ مکرمہ کے گورنر نے ’’کوہ طور سینا ‘‘ میں اس جگہ سے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب تعالیٰ سے ہم کلامی کی ہے ایک بڑا پتھر لے کر آیا۔ اس کو جتنا بھی توڑا گیا تو اس کے ٹکڑوں کے اندر سے سیاہ رنگ کے قدرتی پتھر میں سفید نورانی رنگ میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا قدرتی قلم سے دیکھا گیا۔ اس پتھر کے بڑے ٹکڑے میں پورا کلمہ طیبہ اور چھوٹے ٹکڑے میں کچھ حصہ موجود تھا۔
اس نے مزید یہ بھی بتایا کہ اس جگہ کے سب پتھروں میں یہی خاصیت ہے۔ یہ واقعہ سن کر حضرت مخدوم جعفر بوبکائی نے راوی سے فرمایا: یہ شاید اس مقدس آیت قرآنی کا راز ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فخلع نعلیک انک بسالواد المقدس طوی۔ (طہ ۲۰؍ ۲۱)
ترجمہ : ( اے موسیٰ ! ) تو تو اپنے جوتے اتار ڈال بے شک تو پاک جنگل طویٰ میں ہے۔
( تحفہ الکرام ص ۳۷۵)
عربی میں صوفیانہ تفسیر مجمع البحار قلمی کے مصنف شیخ محمد طاہر محدث سندھی برہان پوری اور مولانا حکیم محمد عثمان بوبکائی حضرت مخدوم کے والد ماجد مخدوم میراں کے شاگرد تھے۔ اور محمد غوثی برہان پوری ( مصنف تذکرہ گلزار ابرار ) قاضی نصیر الدین سالی ، شیخ صالح سندھی ، قاضی عبدالسلام سندھی ( جس نے فقہ میں الوقایہ کی شرح لکھی ) اور شیخ سکہ ( جو کہ شیخ یوسف بنگالی کے داماد تھے) اور دیگر علماء حضرت حکیم عثمان بوبکائی کے شاگرد تھے۔ گلزار ابرار کے مصنف حضرت مخدوم جعفر قدس سرہ کے متعلق رقمطراز ہے کہ :
’’مخدوم جعفر کی زبان کو فضیلت علم حاصل تھی اور ان کے قلب کو معرفت حقیقہ حاصل تھی اور وہ دلوں کے اسرار پر مطلع تھے۔ نفوس کائنات کے رموزسے واقف تھے‘‘۔
حضرت مسیح الاولیا ء شیخ عیسیٰ سندھی برہان پوری ؒ نے بتایا کہ میں نے شیخ محمد عثمان بوبکائی سندھی کو فرماتے سنا : حضرت مخدوم جعفر نے اپنی آخر عمر میں کتب منطق وغیرہ دریا برد کرکے زیادہ تر تصوف کے متعلق کتب کا مطالعہ فرماتے تھے مثلا : احیاء العلوم ( امام غزالی ) عوارف المعارف ( شیخ شہاب الدین سہروردی ) اور فصل الخطاب وغیرہ ۔
تصنیف و تالیف :
آپ صاحب تصنیف بزرگ تھے، آپ کی کتب سے سندھ کے اکابر علماء و مشائخ نے استفادہ کیا ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی قدس سرہ آپ کی اکثر تصانیف سے دلائل اخذ کرتے ہیں ۔ بعض کتابوں کا تعارف درج ذیل ہے۔
۱۔ المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ ( عربی ) مولوی غلام مصطفی قاسمی نے اس پر کام کیا اور مقدمہ و حواشی عربی میں تحریر کر کے سندھی ادبی بورڈ جام شورو سندھ یونیورسٹی سے ۱۹۶۲ء کو شائع کیا۔
مخدوم امیر احمد لکھتے ہیں : یہ کتاب فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب کتاب خزانۃ الروایات کی تنقیح و شرح ہے ۔ ( حواشی تحفہ الکرام )
۲۔ عجالۃ الطالبین ۔ مخدوم ٹھٹھوی نے ’’حیات القلوب فی زیارت المحبوب ‘‘ میں اس سے استفادہ کیا ہے۔
۳۔ حل العقود فی طلاق السنود ۔ مخدوم ٹھٹھوی نے ’’تما مالعنایت‘‘ میں اس سے استفادہ کیا ہے۔
۴۔ الصادق المنصف المحق بالد لائل التی ھی بالتقدیم احری و احق ۔ مخدوم عبداللطیف ٹھٹھوی نے ’’ذب ذبابات الدراسات ‘‘ میں اس سے حوالے اخذ کئے ہیں ۔
۵۔ فھج التعلم ( عربی ) سندھ یونیورسٹی نے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی تحقیق و مقدمہ سے ۱۹۶۹ء کو شائع کیا۔
۶۔ حاصل النھج ( فارسی ) علامہ پیر سید منور علی شاہ صاحب جیلانی نے اردو ترجمہ کیا ہے۔
۷۔ رسالہ فتح الدین تصوف کے متعلق ہے۔
۸۔ البشارۃ فی العمل بالاشارۃ
۹۔ قرنہ فی مرنہ و پرنہ
نھج التعلیم کے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے ’’بیاض ہاشمی ‘‘ میں بکثرت حوالے نقل کئے ہیں ۔ حاصل النھج نھج التعلیم کا خلاصہ و تلخیص ہے اصول تعلیم پر ایک عمدہ کتاب ہے ۔ محقق عصر جناب ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی تحقیق کے مطابق علامہ مخدوم جعفر بوبکائی زبردست عالم دین ، عظیم معلم ، اور اعلیٰ قسم کے صوفی تھے۔ وہ صحیح طریقہ تعلیم سے محبت ، فرد اور اصلاح معاشرہ میں خاص دلچپسی رکھتے تھے۔ انھوں نے درس و تدریس کے دوران جو تعلیمی مشکلات در پیش ہوتی ہیں انہیں حل کرنے کے لئے رموز تعلیم تحریر فرمائے ۔ وہ اس جہت میں تعلیم کے مسائل اور مقاصد بھی سکھلاتے ہیں اور یہ بھی سمجھا تے ہیں کہ تعلیمی میدان میں تجربات و مشاہدات کیسے حاصل کئے جائیں ۔ ( حاصل النھج: مقدمہ ) علا مہ بوبکائی کی تصنیف حاصل النھج کو اگر چہ سوا چار سو سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن عبارت کی پختگی ، اعلیٰ اخلاقی اقدار ، اعلیٰ معیار کی تربیت، نصیحت آموز نکات اور تعلیمی اصولوں کی وجہ سے وہ آج بھی جدید تصنیف معلوم ہوتی ہے اور موجودہ تعلیمی نظام میں قابل تقلید ہے۔
نظریات :
آپ مذھبا حنفی اور مسلکا سنی تھے۔ ایک مقام پر خود رقمطرا ز ہیں :
اجتہاد کا مقام حاصل کرنا اگر چہ نا ممکن تو نہیں ہے ، لیکن مشکل ضرور ہے ۔ اس کیلئے دین کے بنیادی عقائد ، شرعی احکام ، قوائد اور اصولوں پر دسترس ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مجتہد کو ہمیشہ تقویٰ اور پر ہیز گاری اختیار کرنا، اہل سنت و جماعت کے عقائد پر راسخ ہونا ضروری ہے۔ بد عات کے تمام اقسام سے ، مال حرام اور ظلم سے اپنے آپ کو بچانا لازم ہے۔ ( حاصل النھج ص ۶۸)
دوسرے مقام پر فرماتے :
’’بے شک لوگوں کو صفت ایمان کی تعلیم دینا اور اہل سنت و جماعت کے خصائل کو بیان کرنا ( دین اسلام کے ) اہم ترین امور میں سے ہیں ‘‘۔ (المتانۃ باب فی الاسلام ص ۵۸۲)
ان الصحیح ان الانبیاء یعلمون الغیب لانہ یعرض علیھم الاشیاء ۔
ترجمہ : صحیح یہ ہی ہے کہ بے شک انبیاء علیہم السلام غیب کا علم رکھتے ہیں کیوں کہ ان پر تمام اشیاء پیش کی جاتی ہیں ۔ ( المتانۃ ص ۴)
٭ اور تحقیق یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ اذان میں حضور پاک ﷺ کا نامی اسم گرامی سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانا، اندھے پن کا علاج ہے۔ بلکہ بعض لوگوں سے یہ بھی روایت ہے کہ بعض نا بینا افراد اس مبارک عمل کی وجہ سے بینا ہو گئے(یعنی اندھوں کو انگوٹھے چومنے کی وجہ سے بینائی واپس مل گئی) (المتانۃ باب الاذان ص۔؍۱۴)
وصال:
عارف باللہ حضرت مخدوم محمد جعفر عباسی بوبکائی کے سن وصال کے متعلق حتمی رائے کا علم نہیں ہو سکا۔ لیکن حاصل النھج تصنیف کو آپ نے ماہ صفر ۹۷۶ھ کے اختتام میں تحریر فرمایا۔
اس سے واضح ہے کہ ۹۷۶ھ کے بعد وصال کیا ہو گا۔
آپ کا مزار پر انوار بوبک ( اسٹیشن بوبک تحصیل سیوہن شریف ) میں معروف اور پتھر سے بنی ہوئی ہے۔
[علامہ پیر سید منور علی شاہ جیلانی القادری مدظلہ نے مخدوم ؒ کی کتاب کا ترجمہ اور آپ کے حالات زندگی مع عقائد و نظریات بھی دلائل سے تحریر فرمائے ہیں ۔ اس مضمون میں آپ کے قلمی مقالہ سے اکثر استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے آمین]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )