استاد الکل ، عارف صمدانی ، حضرت علامہ مخدوم نور محمد عرف مخدوم محمد آریجوی گوٹھ خیر محمد آریجہ ( تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ) میں ۱۱۳۰ھ؍۱۷۱۸ء کو تولد ہوئے۔ ان دنوں سندھ پر کلہوڑوں کی حکمرانی تھی ۔
تعلیم و تربیت :
مخدوم نور محمد نے ابتدائی تعلیم آبائی گوٹھ کے مدرسہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے لاڑکانہ شہر کے مدرسہ جامع مسجد محلہ سرہیہ میں داخلہ لیا اور علامہ شیخ ابن یامین ؒ سے نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
درس و تدریس:
مخدوم نور محمد مانے ہوئے عالم دین ، اعلیٰ مدرس ، فقیہ ، محدث ، لاثانی حکیم ، مفسر ، مبلغ، مصنف ، شاعر اور سب سے بڑھ کر کہ عاشق رسول ﷺ تھے۔ صرف سندھ نہیں بلکہ پنجاب ، افغانستان ، بلوچستان ، قلات ، ایران ، خلیج کی ریاستیں اور مصر وغیرہ سے طلباء آپ کی خدمت میں استفادہ کے لئے آتے تھے۔ آپ تدریس کے بادشاہ تھے اور اسی حوالہ سے شہرت رکھتے تھے۔ تدریس کے شعبہ میں لاجواب خدمات انجام دینے کے سبب آپ ’’استاد الکل ‘‘ خطاب کے صحیح مصداق قرار پائے۔ آپ نے زندگی بھر درس و تدریس کی مسند کو زینت بخشی ۔ آ پ سے سلسلہ تلامذہ کا فیضان آج بھی سندھ میں جاری و ساری ہے۔
گوٹھ خیر محمد آریجہ میں آپ سے پہلے بھی مدرسہ قائم تھا ، جس کو آپ نے بام عروج پر پہنچایا۔
تلامذہ :
آپ کی درسگاہ سے بے شمار علماء کرام قطار د ر قطار فیضیاب ہو کر نکلے ان کی فہرست طویل ہے۔ ان میں سے چند نام معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد المعروف پیر صاحب روضے دہنی ؒ آستانہ راشدیہ پیران پگارہ پیر جو گوٹھ
٭ رئیس العلماء علامہ مولانا سید محمد عاقل شاہ لکیاری ہالانی تحصیل کنڈیارو
٭ استاد العلماء مفتی محمد بن مولانا عبداللہ قریشی گوٹھ بیر تحصیل قمبر
٭ مولانا محمد ابراہیم مشوری وفات ۱۸۰۲ء
٭ مولانا محمد صالح بن سائیں رکھیو ملوی ابڑو وفات ۱۲۰۵ھ
وصال :
حضرت علامہ محمد آریجوی نے گوٹھ خبر محمد آریجہ ( تحصیل ڈکری ضلع لاڑکانہ ) میں۱۲۱۰ھ؍ ۱۷۹۶ء کو انتقال کیا۔ گوٹھ خیر محمد آریجہ کے عام قبرستان میں آپ کی قبر گم نام ہے۔
(ماخوذ: تھیسز : ڈاکٹر غلام علی سانگی سال ۱۹۸۵ئ)
تحدیث نعمت :
بعض اہل علم و دانشور ، علمائے کرام اور اہل دل نے اپنے اپنے طریقہ سے مزار مقدس تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن شاید نہ پا سکے ۔ فقیر سراپا تقصیر راقم الحروف کو حضرت پیر سائیں کے استاد محترم ہونے کے سبب مزار شریف پر حاضری دینے کی بڑی تمنا و آرزو تھی پیر سائیں کا وسیلہ کام آگیاآرزو پوری ہوئی لیکن فرمایا گیا کہ ’’راز کو راز رہنے دیں ‘‘ اس کے بعد فقیر نے کھوج لگانا بند کر دی۔( راشدی )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)