مروان بن حکم
مروان بن حکم (تذکرہ / سوانح)
بن ابی العاص بن امیّہ بن عبدشمس بن عبد مناف قرشی اموی: اس کی کنیت ابو عبد الملک تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمزاد تھا۔ کہتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوا۔ کوئی کہتا ہے، ہجرت کے دوسرے سال پیدا ہوا۔ مالک کے مطابق غزوۂ احد کے دن، کسی کے نزدیک غزوہ خندق کے دن، کسی کے خیال میں فتح مکہ کے دن اور بعض کی رائے میں غزوۂ طائف کے دن پیدا ہُوا۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے محروم رہا۔ کیونکہ بچپن میں جب حضور نے ان کے والد کو جلا وطن کردیا تھا تو یہ طفلِ نادان تھا۔ اس نے یہ عرصہ طائف میں بسر کیا تھا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہُوئے تو انہوں نے خط لکھ کر حَکم کو بُلا لیا اور اسے اپنے قریب کرلیا۔ ایک دن حضرت علی نے حَکُمْ کو دیکھا تو کہنے لگے خدا تجھے تباہ کرے۔ اللہ امّتِ محمدیہ کو تم سے اور تمہارے بیٹے کے شر سے محفوظ رکھے۔
[۱۔ اس کا نام صحابہ میں لکھنا صحابہ کی توہین ہے۔ (مترجم)۔]
مروان کو لوگ خیط باطل کہتے تھے۔ کیونکہ یوم الدار کے موقعہ پر کسی شخص نے اس کی گردن پر وار کیا تھا۔ جس سے اس کی ایک رک کٹ گئی تھی اور وہ کبّا ہوگیا تھا۔ جب شام میں مروان سے لوگوں نے بیعت کی تو اس کے بھائی عبد الرحمٰن نے، جو ایک بے باک اچھا شاعر تھا اور مروان کے طور طریقے اسے پسند نہ تھے۔ یہ اشعار کہے۔
فَوَاللہِ مَا اَدرِیْ وَاِنّی لَسَائِلٰ
|
حَلَیْلَۃَ مَضْرُوُّبِ القَفَا کَیْفَ تَصْنَعْ
|
ترجمہ: بخدا مَیں نہیں جانتا، اسی لیے مَیں اس کبّے کی بیوی سے پوچھتا ہوں کہ تو اس آدمی کے ساتھ کیسے گزر بسر کرتی ہے۔ جو کبا ہے۔
لَحَا اللہُ قَوْ ماً اُمِّرُو اخَیْطَ بَاطِلٍ
|
عَلَی النَّاسِ یَعْطُیِ مَایَشَاعُ و لَمْنَعْ
|
ترجمہ: خدا اس قوم کا بھلا نہ کرے۔ جنہوں نے خیط باطل کو اپنا امیر بنالیا۔ جو اپنی مرضی سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے، محروم رکھتا ہے۔
ایک روایت کی رو سے عبد الرحمٰن نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے، جب امیر معاویہ نے مروان کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا۔ امارت مدینہ کے بعد مکے اور طائف کی امارت بھی مروان کو دے دی تھی۔ پھر حکومت مدینہ سے اسے معزول کر کے سعید بن ابی العاص کو حاکم مقرر کردیا۔ چنانچہ ۵۴ہجری تک مدینہ اس کی تحویل میں رہا۔ اس کی معزولی پر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان، امیر معاویہ کی وفات تک مدینے کا عامل رہا۔
جب معاویہ بن یزید بن معاویہ، اپنا جانشین مقرر کیے بغیر مرگیا۔ تو بعض لوگوں نے شام میں مروان بن حکم کی خلافت پر اس سے بیعت کرلی۔ اسی طرح صحاک بن قیس الفہری نے شام ہی میں عبد اللہ بن زبیر کے نام پر لوگوں سے بیعت لی۔ چنانچہ دمشق کے نواح میں مرج رہط کے مقام پر دونوں مین جنگ ہوئی۔ جس میں ضحاک مارا گیا۔ اور شام اور مصر پر مروان کا قبضہ ہوگیا۔ اس اثنا میں مروان نے خالد بن یزید کی ماں سے نکاح کرلیا۔ تاکہ خالد کو خفیف کرے۔ ایک دن خالد سے کہا۔ اے ترو تازہ سرین والی عورت کے بیٹے! خالد نے اسے کہا۔ تو وہ آدمی ہے، جسے امین بنایا گیا، لیکن تو نے خیانت کی۔ خالد نے ماں سے شکایت کی۔ ماں نے کہا۔ تم مروان کو نہ بتانا۔ کہ تم نے مجھ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جب مروان ام خالد کے گھر آیا، تو وہ اپنی لونڈیوں سمیت اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے گلا گھونٹ کر مار دیا۔ اس کی مدتِ حکومت نو یا دس مہینے تھی۔ یہ ان لوگوں سے ہے جو عورتوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس سے عین بن حسین اور عروہ بن زبیر نے روایت کی۔
اس کے بھائی عبد الرحمٰن نے اس کے بارے میں مندرجہ ذیل اشعار کہے:
اَلَا مَنْ مُبُلِغٌ مَرْوَانَ مِنِّیُ
|
رَسُولَا وَالرَّسُوْلُ مِنَ البَیَانٖ
|
ترجمہ: اچھا، وہ آدمی کون ہے، جو میری جانب سے مروان کو قاصد روانہ کرے اور ایسا قاصد جو بوضاحت پیغام پہنچاسکے۔
بِانَّکَ لَنْ ترٰی طَرَدْاً لِحُرٍّ
|
کَاِلْصَاقٍ بِہٖ بَعْضَ الْھَرَانٖ
|
ترجمہ: تم ایسے آدمی ہو، جو یہ نہیں سمجھ سکتے، کہ ایک آزاد آدمی کو دھتکارنا ایسا ہے گویا اس سے بعض رسوائیاں چپکادی جائیں۔
وَھَلْ حُدِنٰتَ قَبْلِیْ مِنَ کَرِیْمٍ
|
مُعِیْنِ فِیْ الْحَوادِثِ اَوْمَعَانٖ
|
ترجمہ: اور کیا مجھ سے پہلے تجھ سے کسی کریم النفس نے جو حوادث اور خوشحالی میں مدد گار ثابت ہو، گفتگو کی ہے۔
یُقِیْمُ بدَارِ مَضیعۃٍ اِذَا لَمُ
|
یَکُنْ حَیْرَانَ اَو خَفَقَ الجَنَانٖ
|
ترجمہ: وہ مصیبت کے مقام پر ٹھہرا رہتا ہے۔ بشرط یہ کہ وہ حیران اور مخبوط الحواس نہ ہوا۔
فلا تَقَذِفُ بِیَ الرَجویُنِ اَنِّی
|
اَقُلَّ الْقَوْمِ مَنْ یُغْنِی المکَانٖ
|
ترجمہ: تو مجھے دو امیدوں (پس و پیش) کا الزام نہ دے۔ حالانکہ میں قوم میں ایسا آدمی ہوں۔ جو مکان سے بے نیاز ہے۔
سَاٰ کِفِیْکَ الّذِیْ استکفَیْتَ مِنِّی
|
ماَمْرٍ لا تُخَا لَطُہ الیَدانٖ
|
ترجمہ: جلدی ہی۔ تجھے اس ذات کی امداد، جس نے تجھے، مجھ سے بے نیاز کردیا ہے، کافی ہوگی، اس کام میں جسے دو ہاتھوں نے اُلجھایا نہ ہوا۔
وَلَوْ اَنّا بمُنْزِلِمٍ جَمِیُعًا
|
جَرَیْتَ وَ اَنت مُضْطَرِبُ الجِنَانٖ
|
ترجمہ:ایک وہ وقت تھا جب ہم اکٹھے تھے۔ پھر تُو چل کھڑا ہو اور تو بڑی بے چین طبیعت کا آدمی تھا۔
وَلَو لَا اَنَّ اُم اَبْیکَ اُمِّی
|
وَ اَن مَنْ قَدْ ہجاکِ فَقَدْ ہجانی
|
ترجمہ: اگر تیرے باپ کی ماں میری ماں نہ ہوتی۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ تیری ہجو میری ہجو شمار ہوتی۔
لَقَدْ جَاھِرَتُ بِالُبغَضَا عِرانِّی
|
اِلٰی اَمْرِ الْجَھَارَۃِ وَالُعَلَانٖ
|
ترجمہ: تو مَیں بلا شبہ اپنے عنادکا اظہار کرتا۔ کیونکہ مَیں واضح اور کھلی بات کو پسند کرتا ہوں۔