حضرت شیخ معصوم شاہ مجذوب لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ لاہور میں صاحب جذب مجذوب تھے، خوارق و کرامات کا ظہور ہوتا اپنے احباب سے بڑی پر معنی گفتگو کرتے تھے جذب و استغراق کی حالت طاری ہوتی تو مدتوں خاموش رہتے اور کسی کی طرف التفات نہ فرماتے دنیا اور اہل دنیا سے بے نیاز رہتے ہمیشہ اپنے سامنے آگ روشن رکھتے آج بھی لاہور میں ایک ایسا محلہ موجود ہے جو ٹھہری معصوم شاہ کے نام سے مشہور ہے آپ اسی محلے میں سکونت رکھا کرتے تھے بارہ سال تک اپنے دروازے کی دہلیز پر ڈیرا جمائے بیٹھے رہے اور لکڑیاں جلاکر آگ روشن رکھی، یہ آگ لکڑی کی دہلیز کے ساتھ جلتی رہتی، مگر دہلیز کو نقصان نہیں پہنچا کرتا تھا، آج بھی ان واقعات کے چشم دید لوگ موجود اور زندہ ہیں (مولف کتاب کے زمانے میں) جنہوں نے آپ کی زیارت کی تھی حضرت معصوم شاہ کے گھر کی دہلیز اور وہ مقام آج تک زیارت گاہ عام و خاص ہے۔
شیخ شہاب الدین راقم الحروف (مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ) کے احباب میں سے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک ہندو عورت جو ضعیف بوڑھی تھی کشیدہ کاری کے کپڑے لیے حضرت معصوم مجذوب کے دروازے کے سامنے سے گزری حضرت معصوم شاہ اٹھے اور دوپٹے ہاتھ سے چھین لیے اور آگ میں ڈال دیے جو دیکھتے دیکھتے جل گئے چونکہ فقیر مجذوب الحال ت ھے، ضعیفہ روتے پیٹتے اپنے گھر چلی گئی دوسرے دن نور محمد نامی نمبردار سے اپنا حال زار بیان کیا، نمبر دار کہنے لگا فقراء دلآزاری تو نہیں کرتے شاہد اس میں بھی کوئی حکمت ہو عورت کو لیے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت یہ غریب بوڑھی عورت تو محنت مزدوری کرکے لوگوں کا کام کرتی ہے آپ نے انہیں آگ میں پھینک کر جلا دیا ہے اس بیچاری کا تو کوئی ذریعہ معاش نہیں رہا، ان کپڑوں کے مالکان اسے جرمانہ بھی کریں گے حضرت معصوم شاہ مسکرائے اور فرمایا میں نے اس کے کپڑے جلائے تو نہیں میں نے تو آگ میں اس لیے پھینک دیے تھے کہ کشیدہ کاری کے کام میں جو غلطی رہ گئی ہے ٹھیک ہوجائے آپ اٹھے اور دھکتے ہوئے انگارے ایک طرف ہٹائے اور تمام کپڑے صحیح سلامت نکال لیے اور اس عورت کے حوالے کردیے اس عورت نے دیکھا کہ کشیدہ کاری میں ایک حسن اور پختگی پیدا ہوگئی ہے۔
آپ کی وفات ۱۲۰۱ھ میں ہوئی، آپ کا مزار لاہور میں لوہاری دروازے کے باہر ہے۔
آن شہ کون و مکان معصوم شاہ سالِ وصل او چو جستم از خرد
|
|
جود ذاتش طالب مطلوب عشق گفت اے سرور بگو مجذوب عشق ۱۲۰۱ھ
|
(حدائق الاصفیاء)