مستان شاہ مجذوب قدس سرہ
مستان شاہ مجذوب قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ مجذوبان باکمال، اور سر مستانِ صاحب حال بزرگوں میں سے تھے تارک الدنیا مستغفی المراج تھے دنیا اور اہل دنیا سے کوئی سروکار نہیں تھا برہنہ سر اور برہنہ پا لاہور کے کوچۂ و بازار میں پھرا کرتے تھے کبھی کبھی ویرانوں میں نکل جاتے سخت سردیوں میں ایک بھورے (کمبل) میں بسر کرتے مگر سوال کا لفظ بھی زبان پر لاتے لوگ نذرانے پیش کرتے مگر آپ نگاہ میں نہ لایا کرتے تھے جو نذرانے سامنے ہوتے ضرورت مند حضرات خود ہی اٹھاکر لے جاتے اگر بچ جاتے تو خود اٹھاکر لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے بعض اوقات برتن ساز کلالوں کے پاس چلے جاتے اور مٹی کے برتن بنتے دیکھتے رہتے تھے ایک وقت آیا کہ انہوں نے خود برتن سازی شروع کردی اور اس خوبصورتی سے برتن بناتے کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے خود ہی باتیں کرتے رہتے جو دوسروں کی سمجھ میں نہ آتی تھیں، ایک بات کو دس دس بار تکرار کرتے تھے بھوگ مستانی تو درختوں کے پتوں پر اکتفا کرتے۔
رنجیت سنگھ کو آپ سے بے پناہ عقیدت تھی، وہ آپ کے پاس حاضری دیتا، نذرانہ پیش کرتا مگر آپ توجہ نہ فرمایا کرتے بلکہ جوان میں گالیاں دیتے تھے آپ سے بے پناہ کرامات اور خوارق کا ظہور ہوتا ایک دفعہ راقم الحروف (مفتی غلام سرور لاہوری) مزنگ سے لاہور آ رہا تھا جب میں حضرت شاہ اسماعیل محدث لاہوری کے مزار کے پاس پہنچا (ہال روڈ) تو میں نے دیکھا کہ مستان شاہ سڑک کے عین درمیان ننگے لیٹے ہوئے ہیں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ انہیں دیکھنے کو کھڑا ہوگیا اٹھے اور چاہ واتیاں جو مزار کے پاس ہی ہے کی طرف بڑھے کنویں سے ایک مٹی کی ٹنڈ اتاری، چند اینٹیں جمع کیں اور ان سے دیگدان بناکر ٹنڈ اوپر رکھ دی پالک کے ساگ کے چند پتے توڑے، اس میں ڈالے خشک درختوں کی لکڑیاں جمع کیں اور نیچے آگ لگادی اور ایک تالی ماری تو لکڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی ساگ پکنے لگا ہانڈی جوش میں آگئی اب آپ میری طرف متوجہ ہوئے اینٹ اٹھاکر مجھے کہنے لگے بھاگ جاؤ یہاں کیا لینے کھڑے ہو میں ڈرا، مگر میں آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ مستان شاہ جس چیز پر تصرف کرتا ہے اس کی طرف ایک اشارے سے دوڑی چلی آ رہی ہے وہ جس طرف ہاتھ اٹھاتے ہیں چیزیں کھنچی چلی آتی ہیں، جدھر نظر اٹھاتے ہیں حسب منشاء چیزیں دَوڑ دوڑ کر پاس آتی جاتی ہیں۔
شیخ وہاب الدین لاہوری میرے (مفتی غلام سرور قادری قدس سرہ) نہایت شفیق دوست تھے ایک بار ہم چند روز شہر سے باہر ایک ریت کے ٹیلے پر بیٹھے ہوئے تھے، ہمیں بھوک نے ستایا کھانے کو کوئی چیز نہیں تھی ہم نے دیکھا کہ مستان شاہ چلے آ رہے ہیں میں نے کہا کہ مستان شاہ آئے ہیں ہمیں کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ دیں گے میں نے کہا ہی تھا کہ مستان شاہ نے مڑ کر ہاٹھ اٹھایا اور غائب سے چند روٹیاں پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں ہم نے کھانا شروع کیں یہ روٹیاں روغنی بھی تھیں اور گرم بھی۔
ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ایک بار مہا راجہ رنجیت سنگھ کا ایک مصاحب امام شاہ کسی وجہ سے امر تسر میں گرفتار کرلیا گیا، اس کے عزیزوں نے حضرت شاہ سے دعا کی التجا کی جو شخص امام شاہ کی فریاد لے کر مستان شاہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ سناتا ہے کہ میں نے اچھا سا کھانا پکایا، حضرت کی خدمت میں پیش کیا اور دل ہی دل میں امام شاہ کی رہائی کا سوچنے لگا، آپ نے بڑی رغبت سے کھانا کھایا، مجھے دو انگلیوں سے اشارہ کیا اور تسلی دی اسی دن امام شاہ کو امر تسر سے رہا کردیا گیا اور پھر وظیفہ یومیہ مقرر کردیا گیا۔ حضرت مستان شاہ کی وفات ۱۲۷۳ھ میں واقعہ ہوئی تھی۔
چو از دنیا بفردوس بریں رفت |
|
شہ مستان حق دیوانہ عشق |
(حدائق الاصفیاء)