مولانا مفتی عبد الرشید نوری
مولانا مفتی عبد الرشید نوری (تذکرہ / سوانح)
مفتی عبد الرشید نوری (حیدر آباد، سندھ)
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مفتی عبدالرشید نوری نومبر 1959ء میں وادی مہران کے مشہور شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی محترم جناب نورالدین قادری صاحب حیدر آباد کی ایک مشہور و معروف مذہبی وسیاسی و سماجی شخصیت تھے، اور سلسلہ تصوف میں انہیں محدث اعظم پاکستان شیخ الحدیث مولانا سراد احمد صاحب فیصل آبادی سے شرف بیعت حاصل تھا اور ان کی والدہ محترمہ بھی انتہائی دین دار اور مذہبی خاتون تھیں جنہیں مفتی اعظم ہند، شہزادہ اعلیٰ حضرت مولانا مصطفیٰ خان بریلوی سے نسبت ِارادت حاصل تھی والدین چونکہ مذہبی رنگ میں رنگ ہوئے تھے انہوں نے اپنے اس ہونہار اور ذہین بچے کو حدیث کے مطابق ’’والد کا اولاد کےلئے اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں‘‘تعلیم دلائی۔
علامہ نوری صاحبنے حفظ و ناظرہ کی ابتدائی تعلیم دارالعلوم غوثیہ رضویہ سعدیہ بکرا منڈی حیدر آباد میں حاصل کی اس دوران وہ اپنےاستاد محترم حضرت علامہ سعید احمد قادری (خلیفۂ مفتی اعظم ہند و محدث اعظم پاکستان ) کے منظور نظر اور انتہائی لائق شاگردوں میں رہے۔ علامہ نوری نے دوران حفظ پڑھائی کے لئے کبھی بھی اپنے والدین یا استاد سے مار نہیں کھائی صرف ایک مرتبہ استاد نے کچھ منگایا اور انہوں نے لاکر کچھ دیا اس غلطی پر ایک چھڑی کھائی جو ان کی تاریخ حیات کی ایک یاد گار بن گئی۔ حفظ و ناظرہ کی تکمیل کے بعد درس نظامی کی ابتداء انہوں نے عارف کامل، شیخ الحدیث علامہ قاری عبدالرزاق صاحب کے مبارک ہاتھوں پر کی اور کچھ عرصہ صرف ونحو کی ابتدائی تعلیم لی اور دارالعلوم احسن البرکات حیدر آباد میں حصول علم کے لئے داخلہ لیا یہاں ولی کامل حضرت علامہ مفتی محمد خلیل القادری البرکاتی المارہروی نورا للہ مرقدہ نے اس جوہر قابل کو دیکھ کر اپنی خصوصی عنایتوں اور محبتوں سے نوازا اور خاص نظر کرم فرماتے رہے، علامہ نوری کا کہنا تھا کہ ان کے عرض کرنے پر علامہ مفتی محمد خلیل صاحب نے زبان میں شدیدتکلیف کے باوجود ابتدائی چند اسباق کے علاوہ پوری شرح تہذیب انہیں پڑھائی اس درس میں علامہ نوری اکیلے تھے کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہ تھا اس طرح وہ حضرت مفتی صاحب کے بالکل آخری شاگرد قرار پاکر تاریخ کاایک حصہ بن گئے۔ علامہ نوریکا کہنا تھا کہ ان کے دور میں حضرت مفتی صاحب علمی اعتبار سے جس قدر ان پر اعتماد فرماتے تھے کسی اور شاگرد پر ان کا س قدر اعتماد نہ تھا یہی وجہ تھی کہ فراغت کے بعد حضرت مفتی صاحب نے 1981ءمیں انہیں درس نظامی کے استاد کی حثیت سے مسند درس پر بٹھایا، حضرت علامہ نوری 1984 تک دارالعلوم احسن البرکات میں مدرس رہے اس کے بعد ستمبر 84ء میں بلدیہ ہائی اسکول میں عربی و اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے اور 88ءتا 91ء دارالعلوم غوثیہ رضویہ بکرا منڈی میں بعد نماز عشاء درس نظامی کی کلاسیں پڑھاتے رہے۔ حضرت علامہ نوری نے 1984ء تا 1986ء حید ر آباد بورڈ سے مولوی عربی، مولوی عالم، مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی اور 1991ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم ۔اے اسلامک کلچر کیا۔
علامہ نوری ایک بہترین عالم، سلجھے ہوئے خطیب، محقق مصنف اور ایک اچھے مناظر تھے۔انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، متواضح، متدین، منکسر المزاج اور علم وعمل کا پیکر تھے بہت ہی سادہ مزاج و باوقار تھے اور حق گوئی ان کا شعار تھا۔ خدا ترس اور نیک انساں تھے، محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، علامہ نوری کے ان ہی اوصاف جمیلہ کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ نوری شریعت وطریقت کے جامع تھے بچپن سے ہی انہیں ایک اللہ کے ولی کی محبت میں رہنے کا موقع ملاان کا نام نامی اسم گرامی ہے حضرت مولانا اشتیاق علی قادری رضوی ہے یہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلویکے مرید خاص اور مفتی اعظم ہند کے خلیفہ خاص تھے ان کی صحبت نے مولانا نوری کو کندن بنادیا اوار انہی بزرگ نے نوری صاحب کو سلسلہ قادریہ رضویہ کے تمام اور ادووظائف واشتغال کی اجازت مرحمت فرمائی دلائل الخیرات کی اجازت دی اور تعویذات لکھنے کی تعلیم دی اور خصوصی نظر کرم سے نوازا اور حضرت مولانا اشتیاق علی قادری رضوی کی تربیت ہی علامہ نوری علیہ الرحمۃ کو 1981ء میں کشاں کشاں بریلوی شریف لے گئی اور آپ قطب وقت صاحبزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور ایک ہفتہ اپنے مرشد گرامی کی خدمت میں رہے اور روحانی فیوض وبرکات حاصل کئے۔ 28جمادی الاولیٰ 1401ھ مطابق 9؍فروری 1986ء جانشین مفتی اعظم ہندحضرت علامہ الشاہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری نے شاہی مسجد حیدر آباد کے ایک عظیم اجتماع میں علامہ نوریکو اپنی اجازت و خلافت سے نوازا۔17 جماد ی الاخریٰ 1410ھ مطابق ؍15 جنوری 1990ء بروز دو شنبہ معین ملت حضرت مولانا معین الدین شافعی خلیفہ مفتی اعظم ہند نے اپنی اجازت وخلافت عطافرمائی ۔20 رجب 1418ھ، 21 نومبر 1997ء میں رحمانیہ مسجد اختر رضا چوک پر نماز جمعہ کے عظیم اجتماع میں حضرت پیر طریقت، رہبر شریعت، مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد حسین قادری رضوینے علامہ نوری کو اپنی اجازت وخلافت مرحمت فرمائی۔حضرت علامہ نوری کو اپنے مرشد گرامی اور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہما سے عشق کی حد تک محبت تھی ہے اور اپنے مرشد گرامی کی وراثت میں جذبہ عشق رسول ﷺسے ہمیشہ سر شار رہے، ہمہ وقت عقائد اہل سنت کی تبلیغ اور مسلک حق کی ترویج واشاعت میں مگن رہنا ان کا مشغلہ تھا۔
اگرہم حضرت علامہ مفتی محمد عبدالرشید احمد نوری کی ذات کو دیکھیں ، تو آپ ہمیں بے مثال خطیب نظر آتے ہیں اور تقریر کے لئے آپ اکثر فرمایا کرتے تھے چاہے 10 منٹ کی تقریر کرو لیکن قرآن وحدیث کے علاوہ کچھ نہ کہو اور آپ کو علماء کرام نے خطیب اہلسنت کا لقب دیا۔ اگر ہم تدریس کو دیکھیں تو آپ بے مثال مدرس بھی نظر آتے ہیں آپ کے پڑھانے کا اور سبق کو یاد کروانے کا طریقہ ایسا تھا کہ آپ سبق پڑھاتے تو وہ سامنے والے کے ذہن میں اتر تا چلا جاتا ۔آپ بے مثال مصنف بھی نظر آتے ہیں ۔ آپ کی تنصیف شدہ کتابیں ’’مسلمان بچے ‘‘ کو اللہ نے اتنی مقبولیت دی کہ اب تک 1400 سو کی تعداد میں کتابیں پورے پاکستان میں پھیل چکی ہیں اور اسی کتاب کو پڑھ کر شیخ القرآن حضرت علامہ مولانا غلام علی اوکاڑوی نے تقریظ کی شکل میں دعاؤں سے نوازا۔ ’’محمدی نماز ‘‘ ۔ ’’خواتین کا میلاد‘‘ بھی عوام میں مقبول عام ہوچکی ہیں۔
21؍ محرم الحرام 1431ھ مطابق 6؍جنوری بروز بدھ2010ء (شب جمعرات) بوقت سوا نو بجے شب وادی مہران حیدر آباد کے لئے ایک عظیم سانحہ کا دن تھا ، کیونکہ اس دن حیدر آباد کےہر دلعزیز، عشق مصطفیٰ میں ڈوبا ہوا علماء کرام سے بے انتہا محبت کرنے والا، اپنے پیرو مرشد کو دل میں بسانے والا، اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا کا پیغام جگہ جگہ پہنچانے والا عشق مصطفیٰ ﷺ کا پرچار کرنے والا، عشق رسالت کا پیغام پھیلانے والا۔ میری مراد محب العلماء، محبوب مشائخ طریقت، خطیب اہلسنت ، عاشق مصطفیٰ ﷺ، ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگیا۔