آپ میر محمد نازک قادری کشمیری کے فرزند ارجمند تھے۔ اگرچہ آپ تین بھائیوں میں سے چھوٹے تھے مگر بڑے اعظمت اور خدا رسیدہ تھے۔ پہلے آپ کی بیعتِ سلسلہ عالیہ قادریہ میں تھی۔ پھر دوسرے سلاسل میں بھی بیعت ہوئے۔ اور فیض پایا سلسلہ کبرویہ سہروردیہ سے بھی نسبت تھی۔ اس طرح آپ کو پیر سلاسل کیا جاتا تھا۔ ذکر جہد کرتے تو ایک جوش و خروش برپا ہوتا تھا۔ حلقۂ فکر میں بیٹھتےو ایک سکوت چھا جاتا مہدوی عہد حکومت میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ ایک ہندو مہادیو اور ناظم کشمیر کے پیش کار علی مردان خان نے مل کر غلہ خریدا اور اس کا ذخیرہ کردیا۔ ان کی ذخیرہ اندوزی سے خطۂ کشمیر میں قحط پڑا۔ لوگ بھوکے مرنے لگے۔ بادشاہ شاہجہان نے سرکاری ذخائر کا غلہ منڈی میں فروخت کرنے کا حکم دیا۔ مگر ان دونوں نے اپنے کارندوں کی معرفت یہ غلہ بھی خرید لیا۔ چنانچہ یہ غلہ بھی ذخیرہ اندوزی میں مسرور ہوگیا۔ لوگوں نے دھاوا بول کر اس سنگ دل ذخیرہ اندوز ہندو مہادیو کو زندہ جلا دیا۔ ناظم کشمیر نے اس واقعہ کو بغاوت کا نام دے کر ایک زبردست خط لکھا اور بادشاہ شاہجہاان کو شفارش کی کہ ایسے لوگوں کو سزادی جائے۔ بادشاہ نے کشمیر کے علماء اکابر صلحا مشائخ کو دہلی میں طلب کیا۔ ان لوگوں میں حضرت میر محمد علی بھی تھے آپ نے مغل دربار میں ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کی جو حالت ہوئی تھی۔ نہایت موثر طریقہ سے بیان کی۔ تمام اہل کشمیر کو معاف کردیا گیا۔ اور بادشاہ نے کسی کو کچھ نہ کہا بلکہ سرکاری غلہ کے ذخائر خطۂ کشمیر میں روانہ کردیتے۔
واپسی پر حضرت میر سرہند شریف آئے اور الوتفیٰ عروۃ محمد معصوم خلف الرشید شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس طرح سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں منسلک ہوئے خرقہ خلافت پایا۔ اور کشمیر کو واپس آئے۔ آپ کی وفات ۱۰۷۲ھ میں ہوئی۔ آپ کا مزار پُر انوار کشمیر میں ہے۔
چو شد میر جنت ز دنیاء دوں بگو منبع فضل تاریخ او ۱۰۷۲ھ
|
|
محمد علی میر روشن ضمیر دگر بار مخدوم اسلام میر ۱۰۷۲ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)