میر سید حسین مشہدی
میر سید حسین مشہدی (تذکرہ / سوانح)
مراۃ الاسرار میں منتخت التاریخ سے رویات نقل کی گئی ہے کہ ۶۸۹ھ میں شہر دہلی اسلام کا پایۂ تخت بن گیا۔ اور سلطان فخر الدین سام نے کچھ عرصہ دہلی میں قیام کر کے حکومت اپنے معتمد غلام قطب الدین ایبک کے سپر دکی اور خود غزنی چلا گیا۔ اور ملک خراساں میں کچھ عرصہ حکومت کرنے کے بعد ایک معرکہ میں شہید ہوا اور قطب الدین ایبک ہندوستان کا مستقبل فرمانردا ہوگیا۔ اس نے گرد ونواح کے علاقوں کو فتح کر کے میر سید حسین شہید کو جو سید حسین خنک سوار کے نام سے موسوم ہیں اجمیر کا حاکم مقرر کیا سید حسین مشہدی سادات مشہد مقدس میں سے تھے۔ اور اپنے آباواجداد یعنی ائمہ اہل بیت کے مرید تھے۔ لیکن اپنے آپ کو چھپانے کی خاطر انہوں نے اہل دنیا کا لباس اختیار کر رکھا تھا اور دنیا داروں کے لباس میں بزرگان دین سے کسب فیض کرتے تھے۔ آپ ظاہری وباطنی کمالات کی بنا پر یگانۂ روزگار تھے۔ آپ اپنے آباؤ اجداد کی سنت کے طور پر جہاد کی خاطر سلطان معز الدین محمد عوری کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ جب سلطان معز الدین نےہندوستان فتح کر کے قطب الدین ایبک کے حوالہ کیا تو میر سید حسین شہدی کو بھی قطب الدین کی رفاقت پر مامور کیا۔ قطب الدین ایبک نےخود دہلی میں سکونت اختیار کی اور اجمیر میں سید حسین مشہدی کو تعینات کیا۔
جب سید حسین اجمیر پہنچے تو انہوں نے حضرت خواجۂ غریب نواز قدس سرہٗ سے بے حدمحبت ہوگئی۔ چنانچہ ان کے درمیان رازورموس کی صحبتیں شوع ہوگئیں اور امیہ کے گرد ونواح کے اکثر لوگ سید حسین کے ذریعے دولت اسلام سے مشرف ہوکر حضرت اقدس کے مرید ہونے لگے۔ جس سے وہاں کے مشرک اور بے دین لوگوں کے دلوں میں سید حسین کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکنے لگی۔ اور ہر وقت موقع کے انتظار میں رہنے لگے۔ جب قطب الدین ایبک کی وفات ہوئی تو سید حسین کی فوج گردونواح کے علاقوں میں تعینات تھی آپ چند نفور کے ساتھ قلعہ اجمیر میں رہتے تھے (جسے آجکل تار اگڑھ کہتے ہیں) کفار نے موقع غنیمت سمجھ کر کثیر تعداد میں چاروں طرف حملہ کر کے سید حسین اور ان کے ساتھیوں کو شب تاریک میں شہید کردیا۔ اور بھاگ گئے۔ چنانچہ صبح کے وقت حضرت خواجہ غریب نواز پہاڑ پر تشریف لے گئے (جہاں قلعہ تارا گڑھ ہے۔) اور نماز جنازہ پڑھ کر شہدا کو وہیں دفن کیا۔
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ سید حسین شہید کا مزار پر انوار نہایت ہی پرکیف مقام ہےاور فیضان کی جس قدر وہاں بارش ہوتی ہے اور کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اپ کی مزار پر ن ہایت ہی قوی تصرف اورشان عظیم ظاہر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فقر نے وہاں قیام کر کے فیض حاصل کیا ہے۔ اور حق تعالیٰ نے آپ کی روحانیت کی توجہ سے اس فقیر پر عالم ارواح کی ح ققتی قبل از تخلیق جسد خاکی اور بعد از جسد خاکی نیز بہشت اور دوزخ کی حقیقت بمع جمع مراتب منکشف فرمائی۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ قطب الدین ایبک نے بیس سال حکومت کر کے ۶۰۷ھ اور بقول دیگر ۶۱۰ھ میں چوگان کھلیتے ہوئے گھوڑے سے گر کر رحلت کی۔ اس کے بعد سلطان شمس الدین ملتمیتس (التمش) جو قطب الدین بختیا کا غلام اور متبنہ تھا۔ اراکین سلطنت کے مشورہ سے تخت نشین ہوا۔ جس سے دین اسلام کو مزید ترقی ہوئی۔ سلطان شمس الدین التمش حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس سرہٗ کا راسخ العقیدہ مرید تھا۔
حضرت خواجۂ بزرگ کی ولائت کا تصرف تمام سلاسل پر
مراۃ الاسرار میں یہ بھی مرقوم ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ کی کرامات کے سارے ہندوستان میں شہرت ہوئی تو کفار جوق در جوق آکر آپ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے لگے۔ حضرت خواجہ بزرگ آیۂ پاک ‘‘یھدی من یشاء ویضل من یشاء ’’ پر یقین کامل رکھتے تھے اور کسی شخص کو اسلام لانےکی دعوت نہیں دیتے۔ک جو شخص خود بخود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ اُسے احکام اسلام کی تلقین فرماتے تھے اور جو شخص آپ کی طرف مائل نہیں ہوتا تھا، آپ اس سے مزاحمت نہیں فرماتے تھے۔ اور وحدت وجود میں کمال استغراق کے باعث آپ ہر فرقہ کے ساتھ تواضع سے پیش آتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ کافر اور مسلم اپنے اور بیگانے اور ہر فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے آپ کی طرف مائل ہوکر فیض مشاہدہ سے مشرف ہوتے تھے۔ چنانچہ آج تک یہ سنت جاری ہے۔ اور ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ عرس کے موقع پر اور دیگر ایام میں اجمیر شریف میں ھاضر ہوکر روضہ اقدس پر نذرو نیاز پیش کرتے ہیں۔ اور آستان مبارک پر جبین سائی کرتے ہیں چنانچہ اس کا مشاہدہ ساری خلقت کرتی ہے۔ حضرت خواجۂ بزرگ کے سلسلہ میں ایسے مردان خدا پیدا ہوئے ہیں کہ ہر علاقے میں بادشاہی کر رہے ہیں اور ہندوستا کے کسی علاقے میں کوئی ایسا مقام نہیں ہے۔ جہاں آپ کے خلفاء مدفون نہ ہوں اور تصرف نہ کرتے ہوں۔ حتیٰ کہ دوسرے سلاسل کےمشائخ بھی جو ہندوستان میں ہیں۔ بعض اس سلسلہ میں داخل ہوکر اور بعض ویسے آپ کی روحانیت سے نسبت پیدا کر کے تصرف کرتے ہیں۔ جیسا کہ سالار مسعود غازی اور شیخ بدیع الدین شاہ مدار جن کا ذکر خیر آگے آرہا ہے۔
حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہٗ کے بعد بھی اپ کے سلسلہ عالیہ میں جو بزرگ کسی مقام پر سجادۂ خلافت پر متمکن ہوتا ہے سارے ہندوستان پر تصرف کرتا اور ولایت صور فی ومعنی کا عزل و نصب اس کے تصرف میں ہوتا ہے۔ اور حضرت خواجۂ بزرگ کی روحانیت بلاواسطہ ہر زمانے میں اس کی ممدو معاون ہوتی ہے۔ کمال ولایت کا یہ تصرف جو زندی اور ممات کے دوران بدستور قائم رہے۔ دوسری جگہ بہت کم دیکھنے میں یا ہے اور بفضلہ تعالیٰ ہر زمانے میں ہندستان میں آپ کے خلفاء معنوی کا تصرف قیامت تک رہے گا۔ ایک بزرگ جاتا ہے اور دوسرا آتا ہے۔ ایک عارف نے خوب کہا ہے ؎
اگر گیتی سراسر بادگیرد |
|
چراغ مقبلاں ہر گز نمیرد |
صاحب مراۃ الاسرار پر خواجۂ بزرگ کی عنایت
مراۃ الاسرار میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت خواجۂ بزرگ کی روحانیت سے اس فقیر پر اس قدر تصرفات اور کرامات کی بارش ہوئی ہے کہ اگر تحریر میں لایا جائےتو ضخیم کتاب بن جائے گی۔ لہٰذا آپ کی صرف ایک کرامات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب خواجۂ بزرگ نے کمال ذرہ نوازی سے عالم باطن میں اس فقیر کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا کہ اگر چہ تم ہمارے سلسلہ میں مرید ہوتا ہم میں تجھے بلاواسطہ اپنا مرید کرتا ہوں تو اس عاصی کے دل میں خیال گذرا کہ جب حضرت خواجۂ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے حضرت خواجہ بزرگ کو مرید بنایا تو ان کو مکہ معظمہ لے گئے۔ کعبہ سے آواز آئی کہ میں نے معین الدین کو قبول کیا۔ یہ خیال آتےہی خواجۂ بزرگ کی رحوانیت نے مجھ پر تصرف کیا اور میں نے اپنے آپ کو حرم کعبہ میں پایا۔ شرف زیارت حاصل ہوا اور ایک صاحب وقار مرد کو دیکھا کہ آبِ زمزم پر کھڑا ہے۔اور میری طرف متوجہ ہوکر کہہ رہا ہے کہ میں نے تجھے بھی قبول کیا۔ یہ دیکھ کر مجھے حضرت خواجۂ بزرگ کے کمال تصرف پر حیرت ہوئی اور سجدۂ شکر بجالایا۔ غرضیکہ لکھوں تو کیا لکھوں۔ حضرت خواجۂ بزرگ قدس سرہٗ کے کمالات کی کوئی حَد نہیں ہے اور آپ کی روحانیت آج تک ہر طالب صادق کی تربیت کر کے اُسے مرتبہ تکمیل تک پہنچارہی ہے۔ آپ کے کمالات اور کرامات اظہر من الشمس ہیں اور اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر کتاب میں انکی گنجائش نہیں۔
ہر شب خانہ کعبہ کا طواف اور اجمیر کو واپسی
روایت ہے کہ آپ ہر شب اجمیر سے خانہ کعبہ کے طواف کے لیے جایا کرتےتھے۔ جو لوگت حج کو جاتے تھےآپ کو طواف کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ لیکن گھر کے لوگ یہ خیال کرتےتھے کہ آپ عبادت خانہ میں بیٹھےہیں۔ آخر لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ آپ ہر رات طواف کعبہ کے لیے جاتے ہیں اور صبح واپس اکر نماز فجر اجمیر میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
سلسلہ چشتیہ کے مریدین کیلئے ابدی بشارت
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجۂ بزرگ حرم کعبہ میں مشغول بیٹھے تھے کہ غیب سے آواز آئی کہ اے معین الدین میں تجھ سے راضی ہوں اور تجھے بخش دیا ہے اور اب جس چیز کی تجھے خواہش ہو طلب کرو میں عطا کرونگا۔ آپنے عرض کیا کہ الٰہی معین الدین کے مریدین اور معیدین کے مریدین جو بھی اس کے سلسلہ میں داخل ہوں ان کو بخش دے۔ فرمانہوا کہ اے معین الدین تو میرا ہےاور تیرے مرید اور تیرے مریدوں کے مرید قیامت تک جو بھی تیرے سلسلے میں داخل ہونگے میں نے سب کو بخش دیا (الحمدللہ علی ذالک) اسکے بعد حضرت خواجۂ بزرگ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میرا مرید ہے یا میرے مریدوں کا مرید ہے اور قیامت تک جو میرے سلسلہ میں داخل ہوگا۔ معین الدین اس وقت تک بہشت میں قدم نہیں رکھے گا جب تک اس کو بہشت میں نہ لے جائےگا۔
کتاب اسرار السالکین میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ کبھی جمال میں ہوتے تھے اور کبھی جلال میں۔ جب آب پر حال جمال طاری ہوتا تو اس قدر مستغرق ہوتے تھے۔ کہ اس جہان کی آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو حضرت خواجہ قطب الدن اوشی اور قاضی حمید الدین ناگوری آپ کے پاس جاکر کھڑے ہوتے تھے اور الصلوۃ والصلوٰۃ کی آواز بلند کرتے تھے۔ لیکن اپ کو مطلقاً اس کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ دوبارہ الصلوٰۃ الصلوٰۃ کی آواز دیتے تھے لیکن پھر بھی آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی۔ اس کے بعد وہ آپ کے کندھے کو پکڑ کر ہلاتے تھے تو حضرت اقدس آنکھ کھولتے اور فرماتے کہ شرع محمدی سے گریز نہیں ہے۔ سبحان اللہ! مجھے کہاں سےکہاں لائے ہو۔ پس آپ وضو کر کےنماز پڑھتے تھے جب آپ پر حالت جلا طاری ہوتی تھی۔ دروازہ بند کر کے بیٹھ جاتے تھے اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اور شیخ حمید الدین ناگوری دروازے کے سامنے پتھر جمع کر کے اُن کےپیچھے چھپ کر بیٹھ جاتے تھے۔ جب نماز کا وقت آتا تو حضرت اقدس کے باہر آتے ہی جب آپ کی نظر ان پتھروں پر پڑتی تھی وہ ریزہ ریزہ ہوکر خاکستر ہوجاتے تھے۔ اس کے بعد یہ دونوں صاحبان حضرت اقدس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اور نماز ختم ہوتے ہی بھاک کر چھپ جاتے تھے۔ راقم الحروف نے اپنے مشائخ سے سنا ہے کہ جب حضرت خواجہ علیہ رحمہ مراقبۂ ماہتاب[1] یا چراغ فرماتے تھے۔ تو حالت جمال کا آپ پرغلبہ ہوجاتا تھا۔ اور جب مراقبہ بساط ہو یاشغل ہوا میں مشغول ہوتے تو حالت جلال طاری ہوتی تھی۔
ایک دن آپ مراقبۂ ہوا کر رہے تھے کہ عالم تنزیہہ[2] آپ کے جسم مبارک پر طاری ہوا اور لوگوں کی نظروں سے غیب ہوگئے۔ حتیٰ کہ چالیس راز تک آپ کا جسم مبارک نظر نہ آیا۔ اور ہمارے شیخ قطب الاقطاب حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ کی حکایت اس حکایت کے موافق ہے۔ ویہ یہ کہ ایک دن قوال ہمارے پیر ومرشد کو قوالی سنارہے تھے کہ اس اثنا میں آپ کا سر مبارک نظروں سے گم ہوگیا۔ اس کے بعد آپ کا تمام جسم گم ہوگیا اور تین دن تک یہی حالت رہی۔ تیسرے دن جب لوگوں کی آہ وفریاد بلند ہوئی تو آپ طاہر ہوگئے اس وقت حاضرین مجلس میں سے صرف تین آدمیوں کو آپ نےنظر اٹھاکر دیکھا ان میں سے ایک یہ احقر راقم الحروف تھا۔ آپ کی اس نظر سے ہم میں سے ہر شخص علیحدہ علیحدہ حالت طاری ہوئی۔ ایک شخص نے یہ دیکھا کہ بے شمار چاند حضرت شیخ سوندہا قدس سرہٗ کے ہر بن موئے سے نکل کر خوبصورت لڑکوں کی شکل میں ظاہر ہوئے اور آپ کی بائیں جانب صفیں بناکر بیٹھ گئے۔ دوسرے شخص نے یہ دیکھا کہ بیشمار سورج آپ کے ہربن موئے سے نکل کر خوبصورت عورتوں کی شکل میں ظاہر ہوے اور آپ کی دائیں جانب صفیں باندھ کر بیٹھ گئیں۔ اور دائیں اور بائیں بازو والے یہ تسبیح پڑھ رہے تھے۔ (لا الہ اللہ انی رسول اللہ)تیسرے شخص پر جو حالت کشف ہوئی۔ وہ بیان سے باہر ہے۔مختصر یہ کہ پہلے اس شخص نے یہ دیکھا کہ حضرت شیخ کے ہربن موے سے اٹھارہ ہزار عالم خارج ہوکر ہویت کی فضا میں معلق ہوگئے ہیں اور حضرت شیخ ان جہانوں کے لوگوں کو علیحدہ علیحدہ خطاب فرمارہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ اَلسْتُ بِرِبِّکُمْ سب نے جواب دیا کہ بلیٰ۔یعنی ہاں تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس کے بعد آپ نے ان تینوں آدمیوں کی تربیت اسی واقعہ کے مطابق فرمائی اور سب کو کامل بناکر ان پر ایک نگاہ ڈالی تو وہ سب آپ کا عین ہوگئے اور آپ ہی کی صورت میں ظاہر ہوگئے۔ اور سب نے اِنِّیْ اَنَااللہُ کہنا شرور کیا۔ اس کے بعد اُس صاحب واقعہ آدمی کو ایسا مشاہدہ ہوا کہ نور کا ایک بہت بڑا تخت پیدا ہوا۔ اور اس پر رسول خداﷺ تشریف رکھتے ہیں۔ اس بڑے تخت کے گرد چار چھوٹے تخت ثاہر ہوئے جن پر آپ کے چار یار بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ تین تخت اور نمودار ہوئے جن میں سے ایک پر حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ دوسرے پر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ اور تیسرے پر اس صاحب واقعہ کے شیخ علیہ رحمۃ بیٹھے ہیں۔ اور یہ سب تخت ایک جہاز کے انر ہیں جو ایک بحر بے کراں میں تیر رہا ہے اور ان تخت والوں پر ہر لحظہ انوار وبرکات کے طبق ن ازل ہورہے ہیں۔ اس کے بعد صاحب واقعہ کو اس کے شیخ نے آنحضرتﷺ، غوث الاعظم اور خواجہ بزرگ کی قدم بوسی کا شرف عطا کرایا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے ایک نور سرخ و سبز کی خلعت جس پر سورۂ والضحیٰ کے نقش و نگار تھے اور نور سیادہ و سفید کی خلعت جس پر سورۂ الم نشرح کے نقوش تھے حضرت غوث الاعظم اور خواجہ بزرگ کے سپرد فرمائی اور اس صاحب واقعہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ کہ یہ دونوں اس کو پہناؤ۔ چنانچہ حضرت غوث الاعظم اور خوابہ بزرگ نے وہ دونوں خلعتیں اس صاحب واقعہ کو زیب تن کرائیں اور فرمایا کہ یہ دونوں خلعتیں ہمارے دو طریقے ہیں۔ جو تم کو عطا ہوئے ہیں۔ اور تجھے ہم نے ان دونوں طریقوں میں اپنا نائب اور خلیفہ مطلق بنایا ہے۔ اس سے صاحب واقعہ بعد افاقہ بے حد خوش ہوا اور حق تعالیٰ کا شکر بجالایا۔
حضرت خواجہ بزرگ پر غلبۂ استغراق
اب ہم اس بات پر واپس آتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ م عین الدین اجمیری قدس سرہٗ پر مراقبۂ ہوا کے دوران جلوۂ جمال الٰہی نے اس قدر غلبہ کیا کہ بہ متابعت دم مقیم دم مسافر آپ کا سانس بھی منقطع ہوگیا اور آپ سترہ دن تک بے حس و حرکت پڑے رہے۔
حضرت غریب نواز کا لنگر
کتاب سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز کے لنگر میں س قدر طعام پکتا تھا کہ سارے شہر کے غربا ومساکین سیر ہوکر کھاتے تھے۔ جو خادم لنگر کے کام پر مامور تھا وہ روزانہ حضرت اقدس کے سامنے آکر دست بستہ کھڑا ہوجاتا تھا۔ آپ مصلے کا کنارہ اٹھاتے تھے۔ جس کے نیچے خدائی خزانہ نظر آتا تھا۔ آپ خادم سےکہتے کہ آج لنگر کے لیے جس قدر رقم کی ضرورت ہے یہاں سے اٹھالو۔ وہ حسب ضرورت رقم اٹھالیتا تھا اور لنگر تیار کرتا تھا اور مساکین میں تقسیم کرتا تھا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی نے ایک بے گناہ کو پھانسی دے کر قتل کرادیا۔ اس کی والدہ نے حضرت خواجۂ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کای کہ حجور حاکم نے چند لوگوں کی غلط شکایت پر میرے بیٹے کو پھانسی دے کر ہلاک کرادیا ہے۔ آپ عصا ہاتھ میں لے کر روانہ ہو پڑے۔ آپ کے ساتھ بہت سے لوگ بھی ہوگئے وہاں جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ اُس کا سر تن سے جدا کر کے لٹکادیا ہے۔ آپ نے اس کے سر کو نیچے اتارا اور گردم پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اے مظلوم اگر تجھے بے گناہ قتل کیا گیا ہے تو خدائے عزوجل کے حکم سے زندہ ہوجا۔ یہ سنتے ہی وہ مردہ خدا کے حکم سے زندہ ہوگیا۔ اور صحیح وسلامت ہوکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے بعد اُس نے حضرت خواجۂ بزرگ کے قدموں پر سر رکھا اورکافی دیر تک پڑا رہا۔ اس کے بعد وہ رخصت ہوکر اپنی والدہ کے ساتھ گھر چلا گیا ۔
روایت ہے کہ ایک دن حضرت کواجہ بزرگ شیخ اوحد الدین کرمانی اور شیخ شہاب الدین سہروردی اکٹھے بیٹھے تھے کہ ایک جوان لڑکا شمس الدین التمش نامی سامنے سے گذرا۔ آپن ے اُسے دیکھ کر فرمایا کہ یہ لڑکا دہلی کا بادشاہ ہوگا۔میں نے لوح محفوظ میں دیکھا ہے۔ کہ یہ لڑکا اس وقت تک اس جہان سے رخصت نہ ہوگا جب تک دہلی کا بادشاہ نہ ہو۔ خر جو کچھ حضرت اقدس نے فرمایا پورا ہوا اور وہ دہلی کا بادشاہ ہوا۔
روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ نے چھ روٹیاں بندہ کو عنایت کی ہیں اور آٹھ سال ہوئے ہیں وہ روٹیاں مجھے روزانہ بلا ناغہ مل رہی ہیں اور میرے بال بچوں کا ان پر گذارا ہورہاہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ خواب نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا تجھ پر کرم ہے کہ ولیوں کے اس سردار نے تجھ پر مہربانی فرمائی ہے اور تیری روزی لگادی ہے تاکہ تم پھر کبھی افلاس میں مبتلا نہ ہو۔
کتاب زبدۃ الحقائق میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہے کو حق تعالیٰ کے ساتھ خاص وقت حاصل تھا۔ غیب سے آواز آئی کہ اےعثمان کیا تجھے معلوم ہے کہ تمہارے اور کائنات کے پیداکرنے کی غرض و غایت کیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا معلوم نہیں ہے۔ حق تعالیٰنے فرمایا کہ تمہارے اور ساری خلقت کو پیدا کرنے کی وجہ معین الدین اور اپنی خدائی کو ظاہر نہ کرتا[3]
مقامات غوثی وقطبی سے بھی اوپر جانا
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ تمام مقامات غوثی قطبی اور قطب الاقطابی سے گذر کر قطب وحدت یعنی مرتبۂ محبوبیت تک پہنچ گئے تھے اور فنائے احدیت میں مستغرق ہوکر دوست سے ہمرنگ ہوچکے تھے۔
اولاد امجاد
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ کی اولاد کے بارہ میں مورخین نے تاریخ اکبر خانی، اور تاریخ اقبال نامہ جہانگری میں جو کچھ لکھا ہے سب لوگ جانگے ہیں۔ لیکن مشائخ چشت کےملفوظات سے ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ کی بیویاں اور بچے تھے۔ چنانچہ سلطان التارکین حمید الدین سوالی ناگوری جو آپ کے خلیفہ تھے کے ملفوظات میں ہے کہ ایک رات خواجۂ بزرگ کو آنحضرتﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اے معین الدین تم معین دین ہو اور میری ایک سنت کے تارک ہو۔ جب صبح ہوئی تو قلعہ بتھیلی کے حاکم جس کا نام ملک خطاب تھا اور حضرت اقدس کے مریدین میں سے تھا ایک لڑکی جو جہاد میں قیدی بناکر لایا تھا۔ آپ ک ی خدمت میں بھیجی۔ آپ نے ان کا نام بی بی امتہ اللہ رکھا اور اپنے عقد نکاح میں لے لیا۔ اور حضرت بیبی حافظہ جمال اُن کے بطن مبارک سے وجود میں آئیں۔ جن کا مزار مبارک حضرت اقد سکے مزار کے ساتھ متصل ہے۔ اور اُن کے خاوند جن کا نام شیخ رضی الدین تھا کا مزار ناگور میں حوض مند لاکر پر ہے۔ اُن سے دو بچے وجود میں آئے جو عالم طفولیت میں رحلت کر گئے۔
بی امۃ اللہ کے آنے کے چند روز بعد سید حسین مشہدی کے چچا سید وجہہ الدین کو حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے خواب میں فرمایا کہ اپنی لڑکی کا عقد نکاح خواجہ معین الدین کے ساتھ رکردو۔ جب حضرت خواجہ بزرگ کو اس بات کا علم ہوا تو حضرت امام جعفر صادق کے حکم کے مطابق سید وجہہ الدین کی دفتر نیک اختر جن کا اسم گرامی بی بی عصمت تھا کے ساتھ عقد نکاح کرلیا۔ ان سے دو فرزند پیدا ہوئے۔ ایک شیخ فخر الدین دوسرے شیخ حسام الدین لیکن سیر الاقطاب کی روایت کے مطابق تین فرزند پیدا ہوئے۔ دو مذکور الصادر اور تیسرے حضرت خواجہ ابو سعید۔ ان کی عمر پچاس سال تھی اور دو فرزن درکھتے تھے لیکن صحیح ترین۔ روایت وہی پہلی روایت ہے۔ شیخ حسام الدین چھوٹی عمر سے ابدالوں کی صحبت میں چلے گئے تھے۔ اور ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی لیکن سیر الاقطاب میں لکاھ ہے کہ ان کی عمر پنتالیس سال تھی اور اُن سے سات فرزند پیدا ہوئے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیخ فخر الدین خواجہ بزرگ کے محبوب فرزند تھے اور موضع ماندو میں جو اجمیر کے قریب ہے زراعت کا کام کرتے تھے۔ جب وہاں کے حاکم نے مزاحمت کی تو حضرت خواجہ بزرگ سلطان شمس الدین التمش کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمان کی صحت کرائی اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ سلطان شمس الدین کو م لنے دو مرتبہ دہلی تشریف لے گئے۔ پہلی مرتبہ کمال مہربانی سے آپ اپنے مرید وخلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین سے ملاقات کی خاطر تشریف لےگئے تھے۔ اور دوسری مرتبہ اپنے فرزند شیخ فخر الدین کے فرمان کی درستی کےلیے۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ سلطان شمس الدین التمش حضرت خواجہ قطب الدین کے چلا جاتا تو وہ اسے سعادت مندی سمجھ کر فرمان درست کر دیتا۔ لیکن بات یہ تھی کہ کاملین اولیاء ہمیشہ جاہ وجلال اور مشائخیت سے گریز کرتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو خلقت کے سامنے حقیر سمجھتے رہےہیں۔ چنانچہ خود سرور کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام خرید و فروخت کےلیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ان حضرات کا کام دیانت اور راستی پر مبنی ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنی حاجت مدنی کو لوگوں کی نظروں سے مخفی رکھیں اور بناوٹی عزت و ناموس ملحوظ رکھیں وہ جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا خلقت کی عار اور نیک و بد کہنے کی یہ حضرات ہر گز پر وانہیں کرتے تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت خواجۂ بزرگ کا بادشاہ کے پاس تشریف لےجانا مریدن و متقلقین کے حق میں رحمت تھا۔ تاکہ آئندہ کوئی شخصاپنی ولایت ومشائخیت پر ناز نہ کرے اور مریدین کے کاموں سے گریز نہ کرے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ حضرات ہر کام میں مامور من اللہ ہوتے ہیں اور اپنے اختیار سے کوئی کام نہیں کرتے۔ چنانچہ حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ فرماتے ہیں
عشق آمدہ ہمچو خونم اند ر رگ و پوست
کہ تہی کرد مرا ازمن و پُر کرد بہ دوست
خون کیطرحمیری رگ وریشہ میں دوڑ رہا ہے۔ عشق نے مجھے مجھ سے خالی کردیا اور بھردیا ہے۔
اجزائے وجودم ہمگی دوست گرفت
نامیست مرابرمن باقی ہمہ اوست
میرے وجود کے اجزا کی جگہ سب دوست نے لی ہے اب میرے جسم پر صرف میرا نام رہ گیا باق وہی ہے اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ رسول اللہﷺ نے کفار کے خوف سے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ ایک راز ہے آنحضرتﷺ اور حق تعالیٰ کے درمیان اور اکثر لوگوں کے حق میں رحمت تھی۔ فھم من فھم (سمجھا جس نے سمجھا)
غرضیکہ حضرت شیخ فخر الدین جو خواجہ بزرگ کے محبوب ترین فرزند تھے۔ آپ کا وصال قصبہ سردار میں ہوا جو اجمیر سے سولہ کوس کے فاسہ پر ہے اور اُسی جگہ حوض کے پاس آپ کا مدفن ہے۔ شیخ فخر الدین کے تمام فرزندان میں سے شیخ حسام الدین سوختہ تمام کمالات روحانی سے آراستہ تھے اور حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کے دوست تھے آپ کا مزار قصبہ سانبھر میں ہے جو اجمیر شریف کے راستے پر ہے۔ شیخ حسام الدین کے فرنزادن میں سے شیخ خواجہ معین الدین خورد اور خواجہ قیام الدین بھی صاحب کمال بزرگ تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین خورد مرید ہونے سے پہلے ریاضت اور مجاہدات کر کے کام تمام کر چکے تھے۔ کیونکہ آپ براہ راست حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہٗ سے اخذ فیض کرتے تھے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ کے باطنی اشارہ کے مطابق آپ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کے مرید ہوئے۔ اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔
فوائد الفواد حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ سے روایت ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز کے پوتے خواجہ احمد بڑے بزرگ تھے۔ اُن کے بھائی حضرت خواجہ وحید حضرت خواجہ گنج شکر قدس سرہٗ کی خدمت میں مرید ہونے کے لیے آئے تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ نعمت آپ کے خاندان سے بطور بھیک حاصل کی ہےمیری کیا مجال ہے کہ آپ کو مرید کروں۔ لیکن حضرت خواجہ وحید نے اصرار کیا اور مرید ہوگئے۔ اور سر منڈالیا۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ غریب ن واز کے پوتوں میں سے ایک شیخ با یزید ہیں۔ وہ چھوتی عمر میں غیب ہوگئے تھے۔ سلطان محمود خلجی کے عہد میں واپس آئے۔ سلطان نے اُن کو اجمیر کے نواح میں ایک ریاست کا مالک بنایا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد بعض لوگوں نے آپ کے حسب نسب کے متعلق شلوک پیدا کردیے۔ اور بادشاہ تک یہ بات پہنچادی۔ بادشاہ نے علماء وفضلاء اور مشائخ واکابر ملک کو جمع کر کے فیصلہ کرنا چاہا۔ آخر شیخ حسین ناگوری اور مولانا رستم جو اکابر زمانہ تھے اور ان کے علاوہ دیگر اکابر ومشائخ نے گواہی دی کہ یہی شیخ بایزید بن حضرت خواجہ قیام الدین بن حسام الدین سوختہ بن خواجہ فخر الدین بن خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ ہیں۔ اس کے بعد شیخ حسین ناگوری نے اپنی لڑکی شیخ بایزید کے فرزند کے عقد نکاح میں دی۔ الغرض بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ غریب نواز حصور یعنی بے اولاد تھے۔ محض غلط ہے۔ مشائخ چشت کی تصانیف سے بارہا اس بات کا تصدیق ہوچکی ہے کہ آپ صاحب اولاد تھے اور ان کی اولاد وہی ہے۔ جو اوپر بتائی جاچکی ہے۔
لیکن اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ یہ اختلاف مشائخ چشت میں ضرور پایا جاتا ہے۔ کہ میر سید محمد گیسور دراز قدس سرہٗ جو حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کے خلیفہ ہیں وہ اور ان کے ساتھ ایک اور جماعت یہ کہتے ہیں کہ شیخ فخر الدین اور شیخ حصام الدین حضرت بی بی عصمت کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں اور میر سید شمس الدین طاہر جو حضرت شیخ نور قطب عالم کے خلیفہ ہیں۔ لیکن ان میں سے جو بھی روایت صحیح ہو یہ بات تو پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ یہ دونوں حضرات حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ کے فرزند ہیں۔ لیکن قول اول صحیح معلوم ہوتا ہے چنانچہ آج تک حضرت خواجہ بزرگ کی اولاد موجود ہے۔ خواجہ معین الدین خورد بن حسام الدین کی اولاد ولایت مالودہ میں جاکر آباد ہوئی۔ اس جماعت کا حال معلوم نہیں ہے۔ خواجہ قیام الدین ابن خواجہ حسام الدین کی اولاد اجمری شریف میں مقیم رہی اور یہی حضرات خواجہ بزرگ کے جانشین ہوتے رہے۔
چنانچہ خواجہ حسین جو خواجہ قیام الدین منصور کے فرزند تھے بادشاہ نور الدین جہانگیر کے عہد حکومت میں حضرت خواجۂ بزرگ کے جانشین تھے۔ ان کی عمر تقریباً ایک سو سال تھ ی اور ہمیشہ عبادت اور حق پرستی میں اپ نے زندگی بسر کی آپ بہت بڑے بزرگ تھے۔
اُن کے بعد اُن کے بھتیجے شیخ معین الدین سجادہ نشین ہوئے۔ اُن کے بعد اُن کے بھتیجے شیخ علاؤالدین مسند خلافت پر بیٹھے۔ آپ نہایت ہی خلیق تھے سلاح وبزرگی سے آراستہ تھے۔ شاہ عالم بہادر شاہ ابن عالمگیر اورنگ زبید کے عہد میں حضرت خواجۂ بزرگ کے سجادہ نشین شیخ سراج الدین تھے جو بہت بڑے بزرگ اور متقی وپرہیز گار تھے۔ اور حضرت خواجہ غریب نواز کی بشارت پر مسند نشین ہوئے تھے۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ خواجۂ بزرگ قدس سرہٗ کی اولاد کو قیامت تک مسند خلافت پر برقرار رکھیں۔ بحرمت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام وآلہٖ واولادہٖ۔
مجاوران درگاہ
کتاب مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجۂ بزرگ کے مجاور لوگ میر سید فخر الدین ساکن قصبۃ کرہ کی اولاد ہیں سید فخر الدین قصبہ کرہ کے ساداتِ عالی نسب میں سے تھے۔ اور حضرت خواجہ غریب نواز سے محبت کی وجہ سے اپنا وطن ترک کر کے اجمیر شریف میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ چنانچہ انکی اولاد آج تک آستانہ شریف پر موجود ہے اور ہر شخص کی خدمت بجالاتے ہیں۔
حقائق و معارف
حضرت خواجۂ بزرگ قدس سرہٗ نے مریدین وطالبان حق کے لیے جو حقائق و معارف بیان فرمائے۔ وہ احاطۂ تحرر سے باہر ہیں۔ اس فقیر نے اُن میں سے صرف چھ کلمات برکت کے طور پر اس کتاب میں تحرر کیے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ عاشق ہر وقت محو عشق ہے۔اگر کھڑا ہے تو ذکر دوست میں ہے اگر طواف کر رہا ہے تو اس کی ہیبت اور عظمت میں ہے۔ نیز فرمایا کہ اہل عشق وہ ہے جو صبح کی نماز پڑھنے کے بعد دوسری صبح تک محوِ خیال دوست ہے۔ نیز فرمایا ایک مدت تک میں نے خانۂ کعبہ کا طواف کیا لیکن اب خانہ کعبہ میرے گرد طواف کرتا ہے۔ نیز فرمایا کہ عارف وہ ہے جو اپنا دل کونین سے اٹھالے۔ اور سب سے بڑا عارف وہ ہے جو سب سے زیادہ متحتر ہے۔ نیز فرمایا کہ جب میں اپنے چمڑے (وجود) سے باہر آیا تو دیکھا کہ عاشق معشوق اور عشق تینوں ایک ہیں۔ یعنی عالم توحید میں سب ایک ہیں۔ نیز فرمایا کہ عارفین کا وجود منزلۂ آفتاب ہے جو سارے جہان پر چمک کر اُسے نور ولایت سے منور کرتے ہیں۔
مراۃ الاسرار میں مرقوم ہے کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہٗ آخر عمر میں دہلی سے اجمیر گئے ہوئے تھے۔ ایک دن حضرت کواجہ بزرگ قدس سرہٗ نے فرمایا کہ اے درویش مجھے جو یہاں لایا گیا ہے م یرا مدفن بھی یہاں ہوگا۔ چند روز کے بعد ہم آخری سفر کریں گے۔ چنانچہ آپ نے علی سنجری کو حکم دیا کہ خلافت نامہ لکھو۔ میں نے اپ نی خلافت اور سجادگی خواجہ قطب الدین بختیار کودی کیونکہ یہ اُسی کا مقام ہے حضرت خواجہ قطب الدین فرماتے ہیں کہ جب خلافت نامہ مکمل ہوا تو اس دعا گو کے ہاتھ میں دیدیا گیا۔ دعا گو نے سر زمین پر رکھا فرمان ہوا کہ نزدیک آؤ۔ جب میں قریب ہوا تو آپ نے کلاہ اور ستار بندہ کے سر پر رکھی۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کا عصا بندہ کے ہاتھ میں دیا اور خرقہ دعا گو کو زیب تن فرمایا۔ نیز قرآن مجید، مصلے اور نعلین بھی عطا فرمائیں اور فرمایا کہ یہ امانت ہے جو رسول اللہﷺ سے ہمارے مشائخ تک پہنچتی ہے ہم نے تجھے عطا کی ۔ خواجگان چشت نے ان کا حق ادا کیا ہے تم بھی ان کا حق ادا کرو۔ تاکہ مجھے خواجگان کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔ بندہ نے سر زمین پر رکھا۔ اس کے بعد آپ نے بندہ کا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ جاؤ تجھے خدا کے سپرد کیا۔ منزل گاہ عزت پر پہنچایا اور صحرائے حقیقت سے پار کردیا۔ اس کے بعد اس دعا گو کے حق میں حضرت اقدس نے فاتحہ پڑھا اور فرمایا کہ جاؤ جہاں رہو مرد بن کر رہو۔ بندہ نے سر زمین پر رکھا اور رخصت ہوکر دہلی میں آگیا۔ چنانچہ دہلی کے تمام علماء، امراء ورؤساء میرے گرد جمع ہوگئے۔ چالیس دن نہیں گذرے تھے کہ قاصد نے آکر بتایا کہ آپ ک ے چلے جانے کے بعد خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بیس دن قید حیات میں رہ کروصال فرماگئے۔ یہ خبر سنکر بندہ بر اس قدر غم داند وہ طاری ہوا کہ ساری رات مصلے پر بیٹھا رہا۔ میں دیکھا کہ حضرت خواجہ بزرگ عرش الٰہی کے نیچے کھڑے ہیں۔ میں نے اپنا سر اُن کے قدموں پر رکھا اور حال دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے۔ اور مجھے قرب کا مقام عطا فرماکر ساکنان عرش کے درمیان جگہ عطا فرمائی ہے تاکہ اس جگہ قیام کروں۔
سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ جس روز حضرت خواجہ بزرگ نے وصال فرمایا۔ چند بزرگوں نے رسول خداﷺ کو خواب میں دیکھا کہ فرمارہے ہیں۔ خا کا دوست معین دلایدن حسن سنجری آرہاہے میں اس کے استقبال کے لیے آیا ہوں۔ جب حضرت خواجہ بزرگ نے وصال فرمایا تو آپ کی پیشانی مبارک پر سب نور سے یہ لکھا تھا۔
ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ
یہ اللہ کا دوست ہے اور اللہ کی محبت میں جان دی ہے۔
تاریخ وصال
حضرت خواجۂ بزرگ قدس سرہٗ کی تاریخ وصال روز دو شنبہ (سوموار) چھ ماہ رجب ۶۳۲ھ ہے۔دوسری روایت کے مطابق روز یکشنبہ (اتوار) اور روایت کے مطابق اتوار کی رات ماہِ ذی الحج ۶۳۳ھ ہےآپ کی تاریخ وصال ‘‘آفتاب ملک ہند’’ سے نکلتی ہے۔ ان روایات میں سے صحیح ترین پہلی روایت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت سلطان المشائخ اور دیگر بزرگان نے تحقیق کی ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ کا وصال ماہ ربیع الاول ۶۳۳ھ میں ہوااور حضرت خواجہ غریب نواز کے ملفوظات موسوم بہ دلیل العارفین جو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار نے خود لکھے ہیں کی عبارت سے معلوم ہوتاہے۔ خواجۂ بزرگ نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کی زندگی میں وصال فرمایا جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ اس سے اختلاف رفع ہو جاتا ہے۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ محققین کے بیانات سے یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ چکی ہے۔ کہ حضرت خواجہ غریب نواز کا وصال چھ ماہ رجب ۶۳۲ھ یعنی سلطان شمس الدین التمش کے عہد حکومت میں واقع ہوا۔ آپکی عمر ستانوے سال اور دوسری روایت کے مطابق ایک سو سات سال تھی۔ اس میں سے چالیس سال آپ نے اجمیر شریف میں بسر فرمائے۔ اور وصال کے بعد اپنے حجرہ خاص میں دفن ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک سارے ہندوستان کےلیے قبلہ نما ہے۔
اجمیر کی وجہ تسمیہ
کتا اخبار الاخیر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اجاایک راجہ کا نام تھا۔ جس کی سلطنت غرب ہند تک پھیلی ہوئی تھی۔ نیز اجا آفتاب کو بھی کہتے ہیں۔ اور میر ہندی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں اور ہندوؤں کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ پہلی دیوار جو کسی پہاڑ پر تعمیر کی گئی وہ یہی دیعاور ہے جو اجمری کے پہاڑ پر بنائی گئی ہے اور پہلا حوض جو ہندوستان میں بنایا گیا وہ پھکر (یعنی پشکر) کا حوض ہے۔ جو اجمیر سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے اور ہندو لوگوں کی عبادت گاہ ہے۔ سال میں چھ دن وہاں جمع ہوتے ہیں۔ اشنان کرتے ہیں ہندوؤں میں سے جولوگ قیئامت کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ قیامت اسی حوض سے شروع ہوگی۔ اور راجہ اجا ہندوستان کے تمام راجاؤں سے پہلے تھا۔ رائے پتھورا اس کے بہت بعد آیا تھا۔ چنانچہ سلطان معز الدین سام عرف محمد غوری نے حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ کی باطنی امداد سے رائے پتھورا کو ۸۵۹ھ میں شکست دیکر اس کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس زور سے ہندوستان کے تمام سلاطین نوبت بہ نوبت اپنے اپنے عہد میں آستانۂ عالیہ پر کمال نیاز مندی سے حاضر ہوتےرہے ہیں۔ جس کی تفصیل مراۃ الاسرار میں بیان کی گئی ہے۔
مزار مبارک
کتب معتبرہ سے ثابت ہے کہ پہلے آپ کی قبر مبارک اینٹوں سے بنی ہوئی تھی۔ بعد میں سنگ مر مر کی سندوق اس قبر پر بنائی گئی۔ اور پہلی قبر کو بھی بحال رکھا گیا۔ قبر مبارک کی بلندی اسی وجہ سے ہے۔ روضہ متبرکہ کا بڑا اور دروازہ اور خانقاہ معلیٰ بعد میں مالوہ کے ایک بادشاہ نے تعمیر کرائے سب سے پہلے جس شخص نے حضرت اقدس کے روضہ متبر کہ کی عمارت تعمیرکرائی سلطان التارکین حضرت شیخ حمید الدین سوالی (جو حضرت خواجہ غریب نواز کے خلیفہ تھے) کے پوتے خواجہ حسین ناگوری تھے۔ اس سے پہلے آپ کے روضہ اقدس پر عمارت نہیں تھی۔ یہ سنگ سفید کا گنبد جو اس وقت مزار مقدس پر بنا ہوا ہے۔ خواجہ حسین مذکور کا تعمیر کردہ ہے۔ اس کے بعد سلاطین مانڈونے تعمیریں کرائیں۔ روضۂ اقدس کے ساتھ شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ صاحب قرآن ثانی نے سنگ مر مر سے ایک عالیشان مسجد تعمیر کرائ۔ جس کا طول ستانوے گز شرعی اور عرض اسی گز ہے۔ مسجد کےسامنے کا چبوترہ بھی سنگ مر مر کا ہے۔ جس کا عرض ستائیس گز ہے۔ صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ گمان غالب ہے۔ ک ہ ساری دنیا میں اس قسم کی خوبصورت اور پر تکلف اور صاف ستھری عمارت کہیں نہیں ہوگی۔
خلفاء
بعض معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ غریب قدس سرہٗ کے تیرہ خلفاء تھے۔ یعنی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار، حضرت خواجہ فخر الدین، حضرت خواجہ معین الدین، حضرت قاضی حمید الدین ناگوری، حضرت شیخ وجہہ الدین، سلطان التارکین شیخ حمید الدین صوفی، جنکا نسب شریف صحابئ رسول اللہ صلعم حضرت سعد بن زید (یکے از اصحاب عشرہ مبشرہ) لے جا ملتا ہے۔ حضرت شیخ برہان الدین عرف بدو، حضرت خواجہ حسن خیاطہ حضرت شیخ عبداللہ بیا بانی (اجیپال جوگی) المعروف سہرانہ، قدس اسرارہم، نیز حضرت شیخ اوحدین کرمانی کو بھی بعض حضرات آپ کے خلفاء میں شمارکرتے ہیں۔ صاحب سیر الاقطاب نے حضرت بی بی حافطہ جمال، اور سالار مسعودغازی کو بھ ی خواجۂ بزرگ کے خلفاء میں شمار عورتوں میں ہے اور عورت خواہ کتنی صاحب کمال ہو سنت مشائخ یہ ہے کہ اسے خلافت نہیں دی جاتی۔
سالار مسعود غازی
سالار مسعودی غازی کو خراسان کے علاقے میں رجب سالاری کہتے ہیں اور بعض ماقامات پر اس کو غازی میاں، ہالی میاں، او ربالا پیر بھی کہتے ہیں۔ ملک پورب کے اکثر لوگ انکو سالار مسعود غازی کے نام سے یاد کرتے ہیں آپ کا لقب سلطان الشہداء ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ بنامیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ اپ کے والد ریف کا اسم گرامی سپہ سالار امیر ساہوبن میر عطاء اللہ تھا۔ آپ کی والدہماجدہ سر مغلی سلطان محمود غزنوی کی ہمشیرہ تھیں۔ اکثر اہل بصرت اسبات پر متفق ہیں۔ کہ میر مسعود کی شہادت کے بعد جو شخص ہندوستانمیں مرتبہ شہادت حاصل کرتا ہے۔ ان کی متاتبعت پر مامور ہوتا ہے۔ آپ حضرت خواجہ ابو محمد محترم چشتی قدس سرہٗ کے ہمعصر تھے۔ آپ کی شہادت حضرت خواجہ غریب نواز کی ولادت اور ظہور سے بہت عرصہ پہلے تھی۔ اس لے آپ کس طرح حضرت خواجہ بزرگ کے خلفاء میں شمار ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان کی روحانیت حضرت خواجہ بزرگ کی روحانیت سے ہمیشہ مستفیض ہوتی رہی۔ چنانچہ صاحب مراۃ الاسرار تاریخ مراۃ سکندری سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت شاہ محبوب عالم گجراتی فرماتے ہیں کہ چونکہ اکثر لوگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ سے حاجات طلب کرتے تھے، حضرت اقدس ان کو سالار مسعود غازی کی روحانیت کے حوالہ فرمادیتے تھے۔ صاحب مراۃ الاسرار نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب یہ نیاز مندوسط سلوگ میں بعض ظاہری وباطنی امور میں حضرت خواجہ غریب نواز کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ تو آپ مجھے سالار مسعود قدس سرہٗ کی روحانیت کی طرف اشارہ فرماتے تھے۔ چنانچہ ان کی توجہ سے نیازمند کے تمام امور انجام پاتے تھے۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے ۔ کہ حق تعالیٰ نے سالار مسعود غازی کو مادر زاد دولت عطا فرمائی تھی۔ اور آپ ہمیشہ جہاد اکبر و جہاد اصغر میں اپنے اجداد کی طرح کوشش کرتے رہتے تھے۔ اور حکومت اور جہاں بانی کے باوجود ایک ساعت کے لیے بھ ی شغل باطن سے غافل نہیں ہوتے تھے۔ اور خلعت کے وقت درویشان اہل توحید کے ساتھ صحبت رکھتے تھے۔ اور نہایت بلند حقائق و معارف جو ان کو وراثت کے بطور آئمہ اہل بیت سے حاصل ہوئے تھے۔ اہل توحید کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔ اور ذات مطلق کا استغراق آپ پر اس قدر طاری تھا۔ کہ اری کائنات میں آپ مشاہدہ جمال حق کرتے تھے۔ اور غنایعنی امیری میں اپ کو بمصداق اذا لم الفقراء فھو اللہ احوال و مقامات فقر حاصل تھے۔ یہ دولت کسے حاصل ہے۔ آپ کی ولادت بروز یکشنبہ بوقت صبح بتاریخ ۲۱؍شعبان ۴۰۵ھ اجمری شریف میں ہوئی۔ اور اپ بروز یکشنبہ ۱۴؍ماہ رجب ۴۲۴ھ جام شہادت نوش کیا اور بھڑائچ میں دفن ہوئے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہوا ہے۔ کہ شاہ بدیع الدین شاہ مدار کو بھی حضرت خواجۂ بزرگ سے فیض ملا۔ اور آپ کے غیبی ارشارہ کے مطابق قصبہ مکن پور میں سکونت اختیار کی۔
علاوہ ازیں حضرت شاہ عبد الجلیل لکھنوی نے بھی حضرت خواجہ غریب نواز کی روحانیت سے فیضان حاصل کیا۔
اللّٰھم صَلّے عَلیٰ مُحمد وَآلہٖ وَاَصْحَابہٖ اَجمَعیْن۔
ازر ہگذر خاک سر کوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردست نسیم سحر افتاد |
[1] ۔مراقبہ ماہتاب سے مراد شاید چاند کوٹکٹکی لگاکر دیکھنا ہے اورشغل ہوا میں ذات بحت کا مراقبہ کیا جاتا ہے ممکن ہے مراقبہ ہوا سے شغل شمسی مراد ہو یعنی سورج کودیکھتے رہنا سلوک الی اللہ میںیہ دونوں اشغال کیے جاتے ہیں۔
[2] ۔تنزیہہ سے مراد ذات بحت یا احدیت ہے جب سالک فنا سے بھی گذر کر فناء الفناء میں چلا جاتا ہے اور ذات حق میں گم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر روح گم ہوتی جسم قائم رہتا ہے۔ لیکن حضرت خواجۂ بزرگ کے جسم مبارک کے گم ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ذات حق میں فنائے تامہ حاصل تھی۔
[3] ۔مصنف کتاب نے اس روایت پر کافی جرح کی ہے اور اسے غیر معتبر قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(اقتباس الانوار)