ابتدائے کار میں حضرت ابو الاعلیٰ نقشبندی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوئے اور سلسلہ نقشبندیہ کی تربیت حاصل کرتے رہے ایک بار حضرت خواجہ اجمیری کے دربار میں حاضر ہوئے روضہ کی زیارت کی حضرت خواجہ خواب میں ملے اور ارشاد فرمایا کہ ہمارے ملک میں آکر ہمارے طریقہ چشتیہ پر ہی چلنا چاہیے سماع کی مجالس میں حاضر دینی چاہیے چنانچہ آپ روحانی طور پر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے مرید ہوگئے اور باطنی طور پر اس چشمہ فیض سے سیراب ہونے لگے فیضاں چشتیہ کے علاوہ آپ کو دوسرے سلاسل تصوف سے بھی فیض ملا تھا آپ سماع میں بڑا غلو فرماتے اور ہر سال حضرت خواجہ اجمیری کے مزار پر انوار کی زیارت کو جاتے ایک دن آپ کے روضہ انور کے سامنے بیٹھے تھے کہ آپ پر بے ہوشی اور بے خودی طاری ہونے لگی کہ حضرت خواجہ روضے سے باہر تشریف لائے اور آپ کے منہ میں پان رکھا تو آپ ہوش میں آگئے اگرچہ یہ ملاقات روحانی اور باطنی تھی مگر جب آپ کو ہوش آیا تو وہ پان آپ کے منہ میں موجود تھا پھر حضرت خواجہ اجمیری سے اتنی قربت ہوگئی کہ جب دل چاہتا زیارت ہوجایا کرتی تھی اور فیضاں حاصل کرلیا کرتے تھے ہمیشہ تدریس میں مشغول رہتے لوگ آپ سے ہر سلسلہ سے فائدہ حاصل کرتے تھے اغنیا اور امراء سے دُور رہتے اگر کوئی رئیس آجاتا تو اس کی تعظیم نہ کرتے ہاں غربا اور مساکین کو نوازتے کئی بار بادشاہ آئے مگر آپ تعظیماً نہیں اٹھے آپ نے تفسیر سورۃ فاتحہ لکھی اور اس کا نام روائج رکھا تھا۔
آپ ۱۰۳۱ھ میں فوت ہوئے۔
چو در خلد منور گشت اوش
جناب ماہ لقا سید محمد
زشمس المتّقین جو ارتحالش
۱۰۳۱ھ
دگر سّرِ خدا سیّد محمد
۱۰۳۱ھ