میاں عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ
میاں عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
مظہرِ نورِ الٰہی حضرت عبدالجلیل |
یافت قرب لِی مع اللّٰہپیش حق بے قال وقیل |
سینۂ بے کینہ اش کانونِ نارِ عشق بود |
گمرہانِ دو جہاں راذاتِ پاکِ اودلیل |
آشنائے بحرِ عرفاں واقفِ لوح وقلم |
بانئے کارِ دوعالم درسخاوت بے عدیل |
یکدم ازیادِ خداہرگزنمے بودے جدا |
صرف کردے دا؟رہِ حق از کثیروازقلیل! |
از حسابِ روزِ محشر نیست بیم ازہیچ رُو |
زانکہ لطفِ پاک ایشاں باشد اشرف راکفیل؟ |
آپ حضرت شیخ پیر محمد سچیارنوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کے اکلوتے بیٹے اور مریدو خلیفہ و سجادہ نشین تھے۔
حرارتِ عشق
منقول ہے کہ جس وقت حضرت سچیار رحمتہ اللہ علیہ کاوقت وفات قریب ہوا تو آپ کوبلاکراپنے سینہ پر لٹایااور اپنی نعمت باطنی سے بہرہ ورکیا۔اُس دن سے آپ کو عشقِ الٰہی کی حرارت اس قدر بڑھ گئی کہ گرمی شوق سے ہر وقت جسم جلتارہتااور اضطراب وبیقراری غالب رہتی۔ روزانہ دو آدمی پانی کی مشکیں بھرکرآپ پر ڈالتے رہتے۔مگروہ پانی زمین پر جاری نہ ہوتا۔ جسم میں ہی جذب ہوجاتا۔۱؎
فائدہ
عشق کی سوزش کو فرو کرنے کے لیے شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کے سرپربھی باسی پانی ڈالا
جاتاتھا۔۲؎
۱؎کنزالرحمت ۱۲۔۲؎تذکرہ اولیائے ہند جلد ۲ ص ۵۰ سید شرافت
سیر کشمیر
آپ گرمی عشق کی تاب نہ لاکرکشمیر کی سیر کو تشریف لے گئے۔تاکہ وہاں کی برودت سے طبیعت میں کچھ افاقہ ہو۔مگرچونکہ ظاہری سردی عشقِ حقیقی کامقابلہ نہیں کرسکتی۔ آپ اسی حالت میں واپس آگئے اور ملکِ بقاکاسفراختیار کیا۔۱؎
شاہ حسین پر فتح پانا
سید شاہ حسین خوارزمی سوہدروی۔حضرت سچیاررحمتہ اللہ علیہ کے داماد تھے۔یعنی ان کی بیٹی بی بی شہربانو کے شوہرتھے۔انہوں نےدرگاہ سچیاریہ کی نذرونیاز اور چڑھاواکے متعلق تنازع شروع کردیا۔کہ مجھ کو بی بی شہر بانو کاحِصّہ ملناچاہیئےاور بہت فتنہ وفساد برپاکردیا۔آپ بوجہ متعلوبیت عشقِ حقیقی کے گفت وکلام کی فرصت نہ رکھتے تھے۔یہاں تک یہ جھگڑا بڑھاکہ مرید لوگ دربار پر آناچھوڑگئےکوئی شخص نوشہرہ میں نہ آتا۔اتفاقاً یہ خبر شیخ رحمت اللہ شاہ بیگووالیہ کو پہنچی۔ وہ اُن دنوں دہلی میں تھے۔روانہ ہوئے اور بسرعت تمام دس روز میں مسافت طے کرکے نوشہرہ پہنچے اور ایک سو پندرہ روپیہ نذرانہ آپ کے آگےرکھا۔آپ بہت مہربان ہوئےاور فرمایا ۔ میاں رحمت اللہ تجھ آفرین ہے۔کہ تونے ہمارا حق پہچانا۔ورنہ باقی سب یارتو منحرف ہوگئے ہیں۔اور کفران نعمت کیاہے
دگریارہاجملہ برگشتہ اند |
بکفرانِ نعمات آغشتہ اند |
پھرشاہ حسین نے عدالت لاہور میں حِصّہ وراثت کامقدمہ کردیا ۔اُ س میں بھی آپ کے ہمراہ شیخ رحمت اللہ شاہ وہاں جاتے رہے۔آخر لاہور سے شاہ حسین کا مقدمہ خارج ہوگیااور آپ مکمّل وارث بنے۔۲؎
تعمیر روضہ سچیارپیررحمتہ اللہ علیہ
آپ نے ۱۱۲۲ھ میں اپنے والد کے مزارپر گنبد تعمیر کرایا۔دوسرے سب یاروں نے بھی حسب توفیق امداد کی۔۳؎
۱؎کنزالرحمت ۱۲۔۲؎کنزالرحمت ص۱۳۱۔۳؎تحائف قدسیہ۱۲سیّدشرافت
کرامات
میاں میہوں کافیض سلب کرنا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ عرس نوشہرہ کے بعد اپنے طریقہ کے مطابق لکھنوال چلے گئے۔حضرت میرشاہ سلطان بگاشیررحمتہ اللہ علیہ نے بہت کچھ خدمت کی۔ دوسرے روز شیخ پورکی طرف روانہ ہوئے۔راستہ میں خبرسنی کہ میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ کہتاہے کہ میں استقبال کو نہیں جاؤں گا۔میاں عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ خود ہمارے پاس آئیں گےآپ ناراض ہوکر واپس ہوچلےاور فرمایااب میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ خود ہمارے پاس آئے گااور اس کا تمام فیض سلب کرلیا۔چنانچہ اُسی وقت میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ گریہ زاری کرتاہواآیا اور آکر معافی لی۔۱؎
مُردہ زندہ کرنا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ بیٹھک تعمیر کرارہے تھے۔اتفاقاً وہ ترکھان جو لکڑی کی چرائی کررہاتھافوت ہوگیا۔اس کا بال بچہ چھوٹاتھا۔آپ کو ان کی صغر سنی اور یتیمی پر رحم آیا اور خداتعالیٰ سےدعامانگی کہ یا الٰہ العالمین اس کو اپنی قدرت کاملہ سے دوبارہ زندگی عطافرمااور عمردراز نصیب کر۔اسی وقت آپ کی دعاقبول ہوگئی اور وہ ترکھان زندہ ہوگیا۔آپ نے اس کو مزدوری دے کر گھر واپس کیا۔۲؎
معترفین کمالات
آپ کی تعریف میں آپ کے والد بزرگوار حضرت سچیارصاحب نے فرمایاہے کہ میرے بیٹے عبدالجلیل کی مثل کوئی مرد کامل نہیں ۔کیونکہ حیاکی وجہ سے نامحرم عورت کی طرف ہرگزنہیں دیکھتا۔ اگرچہ حُور ہواوراللہ تعالےٰ کے سواکسی کو آشنانہیں رکھتااور جس طرح مہندی میں رنگ پوشیدہ ہوتاہے۔اسی طرح اس میں حق تعالےٰ کانورمخفی ہےاوریہ ہر وقت اللہ کریم عزاسمہٗ کے عشق میں پوشیدہ وگدازہے۔جس طرح پھول میں خوشبو پوشیدہ ہے۔
اورفرمایامیرابیٹاعبدالجلیل سب کادوست ہے اور میرے بعدجہان میں بخشش کرے گا۔اس سے بھی آگ گلزار ہوگی اوردلوں کو منوّر کرے گا۔جن اور انسان اس سے فیض پائیں گے۔۳؎
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎خزینتہ الفقرا۔۱۲۔۳؎تحائف قدسیہ ۱۲ سید شرافت
اولاد
آپ کا نکاح حضرت عائشہ بی بی بنت حاجی سلیمان قوم اعوان ساکن حاجی والہ ضلع گجرات سے ہواتھا۔اُن کے بطن سے آپ کے صاحبزادہ میاں محمد اکرم پیداہوئے۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص احباب یہ تھے۔
۱۔حاجی عبدالرحمٰن زمیندار ساکن ہتار۔
۲۔میاں ظہور شاہ گکھڑ۔ساکن پدراڑی ضلع میرپور۔
۳۔شیخ عبدالرحمٰن مجذوف رحمتہ اللہ علیہ ۔
۴۔میاں عزیزاللہ مغل مجاورِ درگاہ۔
مدحیات
آپ کی تعریف میں علامہ شیخ محمد ماہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے ثواقب المناقب میں یہ نظم
لکھی ہے
سخن برخویشتن مے بالدامروز |
قیامت کردہ طبعِ نکتہ آموز |
ندارد راہ کلفت دردماغم |
چوگل بے دُورمیسوزدچراغم |
سروسرکردۂ شاہانِ نامی |
کہ شد عبدالجلیلش روشنِ فیض |
زاسرارِ پدرگردیدہ معمور |
برنگِ آفتاب از صبحِ پُر نور |
نگاہش قفلِ دل تنگی کشادہ |
شدہ بختِ جواں راپیرزادہ |
برنگِ آفتاب ِ پاک دامن! |
بعالم گرمیِ اوگشتہ روشن |
غمِ عجزش اگرمحراب باشد |
دعائے بے اثرکمیاب باشد |
فلک محوِ طپش از برقِ آہش |
چوماہی ماہ دردام نگاہش |
سرشکِ خون رنگِ زردِ آں شاہ |
گل رعنائے باغِ دردآں شاہ |
دلش آئینہ دارِ شعلۂ طور |
چوشمعِ قائم اللّیل آیۂ نور |
قیامت میرسامانِ نگاہش |
کرامت خانہ زادِ بارگاہش |
تاریخ وفات
میاں عبدالجلیل کی وفات ۱؎ بروزجمعہ ۲۳ ربیع الاوّل ۱۱۲۴ھ میں ہوئی۔قبر نوشہرہ شریف میں اپنےوالد بزرگوارکے چبوترہ پر اُن سےمشرقی طرف بفاصلہ ایک قبردرمیانی کے ہے۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔عالم باشریعت۔
۲۔ذات پاک۔
بی بی شہربانو
آپ حضرت شیخ پیر محمد سچیارنوشہروی کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ارادت بھی والد بزرگوار سے تھی۔
اولاد
آپ کا نکاح سیدشاہ حسین خوارزمی سوہدروی رحمتہ اللہ سے تھا۔کوئی اولادنرینہ نہیں ہوئی۔صرف ایک لڑکی سلطان بانونام تھی ۔رحمتہ اللہ علیہا۔
بی بی فیروز خاتوں
آپ حضرت شیخ پیر محمد سچیارصاحب نوشہروی کی چھوٹی بیٹی تھیں اورانہیں سے بیعت اورارادت
رکھتی تھیں۔خدایادولیہ کاملہ تھیں۔
فیض سے معمورہونا
منقول ہے کہ حضرت سچیار نےوفات کے وقت سب لوگوں کواپنے پاس سے ہٹادیااور آپ کوپاس بلاکر وصیت فرمائی۔بیٹی نماز کوترک نہ کرنااور شریعت کی پابندی کاخیال رکھنا۔آپ اُن کے صدمہ فراق کے باعث روپڑیں۔انہوں نے فرمایا۔بیٹی صبرکرو۔ آپ نے عرض کیا۔باباجی میرے حال پر کچھ بخشش فرمائیں ۔فرمایا۔"اے جگرگوشہ تو فیض کانشان ہوگی۔میرے ہاتھ میں ہاتھ دے ۔تاکہ تیرادستگیر بنوں پھرآپ کاہاتھ پکڑکرمٹھی کی طرح بند کیا اور چند ساعت اپنے ہاتھ میں پکڑارکھا۔۱؎
اولاد
آپ کانکاح سیّد عبدالرحمٰن خوارزمی المعروف شاہ نتھاسلطان عرف نتھے شاہ سوہدروی رحمتہ اللہ علیہ سے ہواتھا۔اُن سے آپ کا ایک لڑکاسید جیون شاہ نام پیداہوااس کی اولاد اب تک قصبہ سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ میں موجودہے۔
۱۔حضرت میاں عبدالجلیل نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کاکچھ ذکرشریف التواریخ کی تیسری جلدموسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے دوسرے حِصّہ لطائف الاخیارنام میں بھی لکھاجائے گا۔شرافت۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)