میاں اکبرعلی دَڑوہ والہ رحمتہ اللہ علیہ
میاں اکبرعلی دَڑوہ والہ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ میاں سلطان حاجی بن میاں سلطان شاہ سچیاری رحمتہ اللہ علیہ ساکن دَڑوہ کے اکلوتےبیٹے تھے۔ آپ کی بیعتِ طریقت سیّد نظام الدین بن سیّد سبحان علی ہاشمی رنملوی سے تھی۔جن کا ذکر تیسرے طبقہ کے ساتویں باب میں گذرچکاہے۔
شجرۂ بیعت
آپ مرید سیّد نظام الدین ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے۔وہ مرید سید قدم الدین ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے ۔وہ مرید اپنے والد سیّد عزیزاللہ ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے۔وہ مرید اپنے والد سید براہم شاہ ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے۔وہ مرید اپنے ہم جدی چچاسید عصمت اللہ حمزہ پہلوان برخورداری رحمتہ اللہ علیہ کے ۔وہ مرید شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ کے۔وہ مرید قطب الاولیأ حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے۔
فیضان کثیر
آپ سادہ مزاج مجذوب اطوار تھے۔صائم الدہررہتے۔علاق کوہستان میں آپ کافیض عام تھا۔جمّوں سے لے کر پونچھ تک مخلوقِ خدا آپ سے فیض یاب ہوئی۔صاحب خوارق و کرامات تھے۔جو کچھ منہ سے نکالتے فوراً ہوجاتا۔آپ کے مریدوں کاحلقہ وسیع تھا۔
جاگیرات
آپ اپنے والدکی وراثت میں ان کی جاگیرات پر قابض ہوئے۔اس کے علاوہ سکھوں کے عہد میں اور بھی کچھ قطعات اراضی معافیں ملی ہوئی تھیں۔جیساکہ اس کی پورانی دستاویزوں سے ثابت ہوتا ہے۔یہاں وہ نقل کی جاتی ہیں۔
(۱)
(مُہربحروف گورمکھی)
"چوں موازی ۸؟قطعہ کاشت خانہ علی اکبرولدسلطان حاجی از موضع دَڑوہ از ابتدائے فصل ربیع ۱۸۸۵ بکرمی ازوجہ دھرم ارتھ عطائے شدہ مومی الیہ معاملہ مذکورہ درتصرف خودآوردہ بدعائے دولت خالصہ جی اشتغال خواہدشت وہیچ فرق نخواہد بود۔تحریربتاریخ ۲۸بیساکھ ۱۸۸۵ بکرمی"۔ بلفظہٖ
(۲)
(مُہر کلاں فارسی) (دستخط شاستری)
"عاملانِ حال و استقبال کارداران صیغہ مال بدانند جو کہ موضع دڑوہ از قراردادقدیم نصفی بصیغہ دھرم ارتھ و نصفی درسرکاردروجہ حقائق آگاہ معارف دستگاہ فقیر اکبر علی نوشہرہ والہ ازراہ حضور والا معاف وداگذار و نصفی حاصلات آنجادر تصرّف خود سال بسال میگرفتہ باشندونصفے معاملہ درسرکار درحق شیخ والافقیر مذکور شب وروز بدرگاہ پروردگار دست بدعامشغول ۔باید کہ بعدہٗ کس مزاحم نصفی محصول موضع مسطورمتعرض ندارند۔بنابراں تلہ وسند و موہرولسانی درج رہی رانوشتہ کہ بفضل ستگور جیو قصور نخواہدشد۔تحریر بتاریخ ۱۶ کاتک ۱۸۹۴ بکرمی پروانگی حضور زبانی دیوان رام رکھامل در سیالکوٹ "۔بلفظہٖ
(۳)
یہ معاملہ کے متعلق آپ کی طرف سے ایک عرضی ہے۔جورادھاکشن لاہوری سے لکھوائی۔
"لالہ صاحب مخلص مہربان مجمع اوصاف بیکران لالہ محبوب رائے جی۔سلمہٗ بعدازلوازم شوق مندی فراواں مشہود ضمیرمنیرباد۔چوں اکبرعلی درویش نوشہرہ والہ درسرکار والاعرض نمودہ کہ مایاں از عہد قدیم مبلغ نود روپیہ تمام نصفہٗ ۴۵؎معاًمشخصہ معاملہ وڑوہہ در سرکار والامعرفت کارداران میدادیم ۔درسال گذشتہ ہم مبلغ نودروپیہ ادائے کردہ بودیم حالالالہ محبوب رائے یعنی آں مہربان زیادہ طلبی میکنندلہذا قلمی یافتہ کہ آں مشفق مطابق آئین سال گذشتہ معاملہ آنجامیگرفتہ باشند اصلاًزیادہ طلبی نسازندکہ درویشاں لشکردعائے اند ہرگززیادہ طلبی نہ کنند۔مطابق آئین مستمرہ عامل باشند۔اطلاعاًحوالہ قلم شدہ فقط۔خدام محترماں راخورسندی ومسروردارند۔الراقم رادھاکشن از لاہور۔ مورخہ ۱۷ہاڑ ۱۹۰۳ بکرمی(مہربحروف اُردو ۱۸۹۱ب)"بلفظہٖ۔
(۴)
یہ معاملہ فصل ربیع ۱۹۱۲ بکرمی کی رسید ہے۔"سریگم داس (بحروف گورمکھی)
"منکہ باوارام ساکن موضع بھروکے ایم جو کہ معاملہ فصل ربیع از میاں اکبرعلی گرفتہ ایم فارغخطی ۱۹۱۲ بکرمی نوشتہ دادہ ایم تاریخ بتاریخ دویم ماہ بھادروں ۱۹۱۲ بکرمی"بلفظہٖ۔
(۵)
یہ معاملہ فصل خریف ۱۹۱۲ بکرمی کی رسید ہے۔
"منکہ نتھوولد متاب ساکن عالم گڑھ ایم ۔چوں دریں وقت مبلغ دہ روپیہ ضرب بُت شاہی دروازہ ماہ پوہ ازمیاں اکبرعلی گرفتیم۔اگربعد ازیں دعوئےکنیم حد شرع شریف دروغی خواہیم شد۱۲ پوہ ۱۹۱۲ بکرمی"بلفظہٖ۔
(۶)
یہ ایک تمسک ہے جومحمد شاہ لاہوری نے مبلغات کے متعلق آپ کو لکھ کردیا۔
"منکہ محمد شاہ ولد پیر عبداللہ شاہ ساکن لاہور چوں دریں ولا مبلغ چہل ویک نیم روپیہ ضرب ڈبرشاہی پیش میاں اکبرعلی دادنی وارم اقرار آنکہ درماہ ہاڑ مبلغ ہائے ادائے نمائم۔اگر ادائے نخواہم ساخت تا مبلغ ہائے بمعہ سودپیشی نہالااروڑاادائے خواہم ساخت۔ایں چند حروف بطریق نوموجود نوشتہ دادم۔ تحریر بتاریخ بیست وہفتم ماہ مانگھ ۱۹۱۲ بکرمی۔
گواہ شد چوہدری شیر محمد چوپالیہ۔گواہ شد میاں اللہ بخش نوشہر ہ والہ"بلفظہٖ۔
(۷)
یہ ایک معافی کا فیصلہ آپ کے حق میں ہواہے۔
(مہرکلاں بخط اُردو)
"۱؎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بنام اکبرعلی ولد سلطان حاجی قوم گکھڑ ساکن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موضع دَڑوہ مدعاعلیہ پرگنہ گجرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دَڑوہ ذیل کڑیانوالہ بصیغہ دھرم ارتھ کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدعی نے بدعوٰے مندرجہ عنوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لکھوایاتھاکہ چہارم معاملہ موضع مذکورکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رام چندگورومظہرکوازعرصہ۱۵؎سال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مظہرتاحال اوس پر قابض ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحقیقات معافی دار۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدعاعلیہ نمبردارمظہرکادرج
نہیں کرایا۔اوربنام اپنے واگذار کرالی۔اورایک نوشت مدعال علیہ ودوسری سند مُہری مہاراجہ رنجیت سنگھ بہادرمیرے پاس ہے اس واسطہ دعویدارہوں کہ چہارم مذکورہ بنام مظہرواگذار ہوجا وےفقط۔چنانچہ مدعی نے قطعات سندات مذکورہ داخل کریں۔جوشامل مثل ہیں۔فقط
۱؎یہ سطورجن میں نقطہ لگائے گئےہیں۔اصلی قلمی دستاویزسے اس قدر کاغذکاحِصّہ پھٹ کرگم ہوچکاہے۔ غالباً رام داس ساکن بھردکے ضلع سیالکوٹ چیلہ گورورام چندنے معانی کاچہارم حِصّہ لینے کا دعویٰ کیاتھا۔جو آیندہ تحریر ۸؎سے بھی ثابت ہوتاہے۔ان سطور میں اُسی کانام بطور مدعی درج ہوگا۱۲سیّدشرافت۔
جواب مدعاعلیہ یہ ہےکہ بعہد سردارصاحب سنگھ کل موضع مذکوربنام بزرگانِ مظہرو شام سنگھ معروف سوبتی ساکن اسلام گڑھ واگذارتھاکہ مدت تلک نصفا نصف کھاتے رہے۔بعد مرنے شام سنگھ مذکور کے نصف حِصّہ اس کا ضبط سرکارہوگیا اور حِصّہ نصف ہمارابدستورواگذاررہا۔بعہدصوبہ سنگھ کاردارمسمات مائی دھنی نے معرفت بی بی راجکوررانی کے سرکارمہاراجہ میں نالش کرکے منجملہ چہارم خام یعنی نصف حِصّہ لے لیااورزبردستی مظہرسے مدعی بسبب زورِ سکّھاں چارمانی غلّہ بابت چہارم مذکورہ لیتارہااوردرحقیقت حِصّہ اس کاپہلے ہی ضبطِ سرکار ہوچکاتھااورجو مظہرنے غلّہ مدعی کو دیا۔توجبراً دیا۔اپنی خواہش سےنہیں دیا۔سرکاراس کی تحقیق فرمالیویں فقط۔
اورجوتحقیقات اس کی معرفت پٹواری وگردونواح عمل میں آئی تو پایۂ ثبوت کو پہنچاکہ کبھی مدعی کا
دخل چہارم گاؤں مذکورپرنہیں ہوااورسب نے متفق اللفظ یہ بات لکھوائی کہ مدعاعلیہ اگربطور خود اپنے گھرسے دیتاہوتوہم کو خبرنہیں۔مگرہم نے مدعی کو بچشم خودکبھی قابض نہیں دیکھا اور جو کیفیت انعام چہارم مذکورہ محمداصغر اہلمدمعافی صدر بندوبست سے طلب کرلی گئی۔تو اس نے رپورٹ میں معروض رکھاکہ اس گاؤں میں ۴۲؎گھماؤں ۴کنال زمین حسب الحکم صاحب معلّیٰ القاب چیف کمشنربہادر بتاریخ ۲۵ اگست سنہ رواں بنام اکبرعلی مدعاعلیہ تا حیات واگذارہےاورخانہ شرکائی میں کسی کانام درج نہیں ہے۔فقط
ازانجاکہ ظاہرہے کہ یہ انعام چہارم موضع مذکورہ کاپیش گاہ جناب چیف کمشنربہادرسے تاحیات مدعا علیہ اکبرعلی بعد تحقیقات واگذارہوچکااور جب کہ تحقیقات اس انعام کی محکمہ بندوبست میں ہوئی تویہ دعی دعویدار ہوااورباوجودموجودہونے سندات کے اصلاً اُس نے خبرگیری نہ کری۔توجس حالت میں کہ پیش گاہ صاحب بہادر ممدوح سے حکم واگذاری صرف بنام مدعاعلیہ ہوچکاہےاور کوئی شریک اس کے نام کا نہیں لکھاگیا۔تواب ہم برخلاف اس حکم کے حِصّہ مدعی کو نہیں دلاسکتے اورجومدعا علیہ کو اقبال دینے چار مانی غلّہ سے مدعی کو ہے لیکن وہ کہتاہے کہ جو نصف حِصّہ جاگیراس گاؤں میں شام سنگھ کاتھاوہ پہلے ہی ضبط ہوچکاتھا۔لیکن نصف حصہ میرے سے سکھاں نے بزبردستی چہارم خام مدعی کی مقررکردی تھی کہ لاچارجبراً کچھ غلّہ دیتارہا۔لیکن کوئی گواہ گردنواح یا پٹواری وغیرہ تصدیق اس کی نہیں کرتااورنیزبیان اس مدعاعلیہ کا درباب دینے چار مانی غلّہ کے ہمارے نزدیک بے سروپا ہے۔کس لیے کہ یہ آدمی خارج از عقل ہے کبھی کچھ ظاہر کیااورکبھی کچھ۔لیکن یہ بھی ضرورہے کہ اس نے مسند اپنی مُہر سے مدعی کولکھ دی ہےاورکچھ کچھ غلّہ دیتارہاہے۔الغرض مدعاعلیہ اپنے گھرسے مدعی کو غلّہ مذکورہ بابت حِصّہ اس کو دیتارہاہے۔لیکن جوکہ یہ انعام پیش گاہ حاکم اعلےٰ سے بنام مدعاعلیہ بلااندراج نام شرکائے واگذارہوگیا۔توہم اس میں کچھ دست اندازی نہیں کرسکتے اور نہ مدعی کو کچھ دلاسکتے ہیں۔مدعاعلیہ کو اختیارہے کہ بدستور سابق اگردیناہو بطورخوددیاکرے۔لہذا
بنظر وجوہات بالا
حکم ہواکہ
دعوےٰ مدعی خارج کیاجاوےاورمثل مقدمہ کی واسطے ملاحظہ اور منظوری بحضور جناب صاحب مہتمم بندوبست بہادرمرسل ہو۔فقط"۔مقابلہ کیاگیا۔سیدعابدحسین امیدوارپٹواری غلام علی نقل نویس"۔بلفظہٖ
(۸)
"کچہری نظامت ضلع گجرات اجلاس لیفٹننٹ ہسکرہنگری صاحب بہادر
(مُہرسرکاری)
۱۸۵۵ء
رام داس چیلہ رام چیرا اوداسی سادھ بنام اکبرعلی شاہ فقیر ساکن دڑوہ پرگنہ گجرات
سکنہ بھروکےپرگنہ سیالکوٹ معافیدارمدعاعلیہ
دعوٰے نصف یعنی اراضی معافی ۴۲؎گھماؤں
۴کنال
مقبوضہ اکبرعلی شاہ مدعاعلیہ واقعہ موضع دڑوہ پرگنہ گجرات
بہ پیشی مثل مندرجہ عنوان رُوبکارمرتبہ محکمہ مرزاعباس بیگ صاحب سپرنڈنٹ ۳۰ اکتوبر
ردان کوحکم طلبی اصل مثل معافی اکبرشاہ معافیدار کامحکمہ صاحب سپرنڈنٹ ممدوح سے اورنیز طلبی
مدعی ومدعاعلیہ اس محکمہ سے صادر ہواتھاکہ برطبق اس کے حورحھرائی روبکار اورحکمنامہ کے بتواریخ مختلف مثل مطلوبہ تھی۔اس سرشتہ میں پہنچی اور نیزفریقین حاضرآئے کہ اظہار ان کے بتاریخ ۱۲فروری رواں ہمارے سامنے تحریرہوئےاورطلبی گواہان مدعی بتاریخ یکم دسمبر حال عمل میں آئی۔کہ بتاریخ ۶دسمبر صدرکے محکمہ گواہان قرارداد مدعی سے دوکس توحاضر آئے اور ایک کی سکونت علاقہ جموں میں معلوم ہوئی اوردوسرامفقودالخبر پایاگیا۔کہ اُس کاکہیں نشان بھی دیہہ مسکن میں نہیں ہے۔چنانچہ اظہارکساں حاضرین کے آج ہمارے روبروقلمبند ہوئےاوربعد تصدیق کے شامل مثل ہو کرآج یہ مثل ہمارے سامنے پیش ہوئی۔معلوم ہواکہ دعویٰ مدعی یہ ہے سابق زمانہ میں یہ موضع دڑوہ دردبست ایک یم بنام مسمات مائی دھنی کہ وہ چیلی ہمارے گورورام چیراکی تھی جاگیرتھا۔عرصہ ۳۹؎برس کوہواہے۔کہ سردارویساسنگھ نے اس گاؤں سے نصف ضبط کرکےشامل خالصہ کردیا اور نصف جاگیر رہاکہ وہ بقبضہ مائی دھنی کے تھا۔منجملہ اس نصف کے مسمات مذکورہ نے بدیں وجہ کہ یہ مدعاعلیہ نمبردار گاؤں کاتھااوراس نے اس گاؤں کو آبادکیاتھا۔نصف اکبر علی شاہ مدعاعلیہ کو معاف کردیااور نصف مسمات مائی دھنی وبعدہٗ مسمی رام چیراگورومظہرکااوربعد فوت اس کے مظہر کھاتارہا۔اب اکبر علی نے میراحِصّہ بھی اپنے نام لکھ لیاہے۔اس واسطے میں مستغیث ہوں اور للعہ۴قطعہ سندمدعی نے داخل کئے۔کہ وہ شامل مثل ہیں۔فقط
اورمدعاعلیہ کوانکارمحض دعوٰے مدعی سے ہے اور وہ یہ اس جواب میں لکھاتاکہ مدعی کی کوئی زمین معافی کی ہمار ے پاس نہیں ہے۔سابق میں یہ کل موضع دَڑوہ نصف بنام میرے بزرگاں کے اور نصف بنام شام سنگھ معروف ککہی ساکن اسلام گڑھ کے معاف تھا۔جب وہ مرگیا۔تویہ نصف گاؤں اس کی معافی کاضبط سرکارہوگیااورمیری معافی بدستور بحال رہی۔اب بھی قابض ہوں اور مدعی جو بوجہ چیلہ ہونے رام چیلہ کےاب دعوےٰ کرتاہے۔سورام چیراسے اور مائی دھنی سے کچھ اس کو واسطہ نہیں ہے۔مسمات مذکورہ زوجہ بال سنگھ کھتری تھی اور خود بھی قوم سے کھترانی تھی اور یہ رام چیراقوم سادھ اوداسی فقیرتھا۔اُس سے کسی طرح کا واسطہ نہیں ہے اور شام سنگھ سواروں میں نوکرتھا۔اس کوبوجہ نوکری کے یہ اراضی نصف گاؤں کےملی تھی۔کہ بعد فوت ہونےاس کے ضبطی میں آگئی۔یوں ہم اپنے طور پر دست برداشتہ ضرور کبھی کچھ غلّہ یاکبھی کچھ پیسہ نقداُس کو سادھ فقیر جان کردے دیاکرتے تھے۔سو عرصہ آٹھ دس برس سے ایک حبہ بھی اُس کو نہیں دیاہے۔مدعی جولیناپانچ مانی غلہ اور ایک روپیہ نقد سال تمام میں بطورٹھیکہ اپنی زمیں کے جو میرے سبب لکھاتا ہے۔ یہ محض غلط اور فریب مدعی کاہے۔ہم نے کبھی کچھ خراج مدعی کو اس اراضی معافی سے نہیں دیا۔فقط
ہم جوروبرومثل سے اس پرغورکرتے ہیں تو کوئی اثبات دعوےٰ مدعی عذردارکے نہیں معلوم ہوتے اورچندجہت سے دعوٰی مدعی محض جھوٹ اور افترامعلوم ہوتاہے۔
اول یہ کہ خود گواہان مدعی کہ قوم سے مختلف ہیں ایک ہندوکھتری اور ایک مسلمان ہے کسی دعویٰ مدعی کے تصدیق نہیں کرتے۔بلکہ صاف لکھاتے ہیں۔کہ ہم نے کبھی کسی طرح قبضہ مدعی کا اسی برس سے اراضی معافی مدعاعلیہ میں نہیں دیکھااور نہ کسی وجہ کرکے ہی مدعاعلیہ کے ساتھ اس کی شراکت رہی اور نہ کبھی مدعی نے اسامیانِ دیہہ سے دانہ لیا۔بلکہ حسب قول فقیرمدعاعلیہ لکھاتے ہیں کہ نصف گاؤں شوہر مسمات مائی دھنی کوبوجہ نوکری کے معاف تھا۔وہ اس کے مرنے کے بعد عرصہ ۵۰؎برس کاہوتاہےکہ ضبط سرکارہوگیا۔یہاں تک کہ مسمات مذکورہ کی اولاد دختری سے موجود ہیں۔انہوںنے بھی اس کا کبھی دعوٰے کسی طرح کانہیں کیااور اس مدعی کو یااس کے گورورام چیراکو کچھ کسی طرح سے واسطہ اور رشتہ قرابت بھی سات مسمات مذکورہ نہیں ہے اور اس نے کبھی ہمارے سامنے غلّہ یاروپیہ کچھ مسمی اکبرعلی مدعاعلیہ سے نہیں لیا۔جھوٹھادعوٰے کرتاہے۔فقط
دوم اسناد مدخلہ مدعی پر اگرغورکیاجاوے توظاہر ہے کہ کوئی سندبنام مدعی کے نہیں ہے۔جو اسناد
ہیں۔ وہ بنام مسمات مائی دھنی کے ہیں۔ایک سند مورخہ ۱۸۷۶بکرمی ساتھ نام مسمات مائی دھنی کے نام رام چیراکاسطردوئم کے اخیر میں بالائےلکھاہواہے۔سووہ کچھ ایسامعلوم ہوتاہے کہ بعد میں کسی نے لکھ دیاہےاوراگرفرض کیاجاوے کہ صحیح ہی ہے ۔تودرصورتیکہ کہ کچھ واسطہ یارشتہ قرابت کسی طرح سے جب کہ اس کو ساتھ مسمات مذکورہ کے تحقیقات سے یعنی خود بیان گواہانِ مدعی سے نہیں معلوم ہوتاہے۔توتحریر نام کی کِس کام آتی ہے۔سوائے اس کے درصورتیکہ ۵۰؎برس سے ضبطی اراضی معافی مسمات مائی دھنی بال سنگھ شوہراُس کے کی بیان گواہان قراردادمدعی سے ظاہر ہے۔تویہ اسناد درصورت بے دخلی اس قدرعرصہ درازکے کیاکام آتی ہیں۔
سوم منجملہ اسناد مذکورہ کے ایک رقعہ مُہری اکبرعلی مدعاعلیہ کاہےاُس نے بطورخودلکھ دیاہے ظاہرہے کہ معافی دارکواپنی معافی سے کسی وجہ کرکےاختیاربخشش کادوسرے کونہیں ہے۔سو اس رقعہ سے بھی مدعاعلیہ کوانکارہےاوروہ لکھاتاہے کہ مدعی نے ہم سے فریب کر کے یہ رقعہ لکھالیاہے اور وہ رقعہ بھی ۱۹۱۱ بکرمی یعنی ایک سال کاہی لکھاہواہے۔اندرعملداری سرکاری وہ کسی طرح سے قابل جوازنہیں۔
چہارم اسناد مدخلہ معافیدار میں فقط ذکر چہارم موضع دڑوہ یاسالم موضع دڑوہ کا بنام مسمات مائی دھنی کے ہے کچھ یہ نہیں لکھتاہے کہ مدعاعلیہ کے حِصّہ سے نصف مدعی کو یااس کے گوروکومعاف ہوئی ۔ تو وہ چہارم مسمات مذکورہ کی توپہلے ہی ضبط ہوگئی ہے۔اب یہ اسناد جو مدعی نے کہیں سے لاکر کے پیش کئے ہیں۔یہ کسی طرح سے قابل جوازنہیں اور مدعی کو جو زیادہ تراورقوی سند اپنے دعوٰے کے وہ رقعہ مُہری مدعاعلیہ ہے۔تو جب کہ اصلی دستاویز مُہری رنجیت سنگھ بوجوہاتِ صدر بے وجود ہوگئی۔ تویہ ایک رقعہ کس کاآمد ہے ۔سوائے اس کے اور بھی دو شق اس میں عائد ہوتےہیں۔ایک تو یہ کہ مدعی قوم سے ہنوداور مدعاعلیہ قوم سے مسلمان ،ہندوکے ساتھ مسلمان کی کیونکہ شراکت ہوسکتی ہے۔دوئم یہ کہ کیاعجب ہے کہ مدعی نے کسی وجہ سے سازش ساتھ مدعاعلیہ کے کرکے یہ رقعہ لکھایا ہواورمدعاعلیہ نے بطمع نفسانی اپنے یہ رقعہ اس کو لکھ دیا۔سواب تومدعاعلیہ بھی تحریررقعہ کے جبریہ براہ فریب مدعی کے بیان کرتاہے اور یہ تحریر بھی صرف ایک سال کی ہے۔تویہ دلیل مدعی کی اُوپر کھانے نصف اراضی معافی مدعاعلیہ کے کسی وجہ کرکے کافی نہیں ہوسکتی۔
پنجم منجملہ گواہان قرارداد مدعی سے ایک گواہ بھی معدوم الخبر ہے ۔یعنی اس نام کا کوئی آدمی بھی اس موضع دَڑوہ میں نہیں ہےکہ اظہار سپاہی مذکوری اور رقعہ مُہری چوکیدار اور نمبرداردیہہ مدخلہ اس
کے سے ظاہر ہے۔یہ بھی ایک دلیل اُوپر ضعیف ہونے دعوٰے مدعی کے ہے۔
ششم جوکہ مدعی اپنے اظہار میں لکھاتاہے ۔جب مسمات مائی دھنی ہمارے گورو رام چیراکی چیلی ہوئی۔ تواس نے یہ زمین اور سب گھربار اپنااورجائیداد اپنی بنام دَھرمسال کے باختیارخود بطور وقت کے چڑھادی کہ اس کے مطابق گوروہماراقابض رہااور ہم بھی کھاتے رہے۔تواس مقام سے ظاہر ہے کہ اس دعویدار کو بجز گوریہ چیلہ ہونے کے کچھ واسطہ قرابت نہیں ۔مسمات مذکورہ یااس کے شوہر س تھااور مسمات نے ہی اپنی جائیداد حسب قول عذردار باختیار خود وقف کردی۔توظاہر ہے کہ یہ اراضی معافی کسی طرح سے باختیارمعافیدار منتقل نہیں ہوسکتی۔تویہ قبضہ جبریہ معافیدارکارہا۔کہ بوجہ چیلہ ہونے مسمات کے اُس نے قبضہ کرلیا۔تویہ قبضہ حسب ایمائے جناب صاحب کمشنر بہادر مثل مقدمہ معافی وغیرہ کے کسی طرح سے قابلِ لحاظ نہیں ہوسکتا۔
ہفتم۔نقشہ بندوبست سرسری میں بھی کوئی اراضی بنام معافیدار عذردار کے وضع نہیں ہوئی تو اب یہ جدیددعوٰے لائق التفات نہیں ہے۔
ہشتم۔بیان پٹواری اور گردجوارسے کہ جو مشمولہ مثل ہے۔نیزقبضہ عذردار تصدیق نہیں ہوتا۔بلکہ وہ لوگ کبھی کسی طرح سے لگاؤعذردارکاساتھ معافی مدعاعلیہ کے نہیں بیان کرتے۔ہم بوجہ تصدیق قبضہ اکبرعلی مدعاعلیہ کے یہ کل اراضی ۸۵؎ بیگہہ بحکم جناب صاحب چیف کمشنربہادر بموجب روبکارہ اا،۱گست۱۸۵۵ء بلاشراکت غیرے تا حیات اکبرعلی کے معاف ہوچکی ہےتواب بہ منظوری تحریر مرزاعباس بیگ سپرنڈنٹ کچھ ضرورت دست اندازی کی بحکم محکمہ بالادست میں بلاکسی وجہ موجہ کے اورتقررکرناشریک جدیدکاجس کاقبضہ اورلگاؤ اس اراضی پر ثابت نہ ہوتاہو۔نامناسب متصور ہوکر۔
حکم ہواکہ
دعوٰی عذرداربوجوہات مصرحہ صدرخارج ۔ڈگری بحق مدعاعلیہ کے ہواور یہ کل اراضی بلاشرکت غیرسے بوجب حکم جناب چیف کمشنر بہادر کے تاحیات مدعاعلیہ کے ہمہ واگذار ہے۔بعد فوت اس کے ضبط ہو۔مقدمہ زیرتجویز سے خارج ہو کرداخل دفترہواور یہ مثل معہ اصل مثل معافی اکبر علی شاہ معافیدار کے واسطے عملدرآمدکے خدمت میں مرزاعباس بیگ سپرنڈنٹ پرگنہ گجرات کے مرسل ہو۔فقط "۔مقابلہ کیاگیا۔۱؎
اظہارعلی روزنامچہ نویس وتجمل حسین اظہار نویس"۔ بلفظہٖ
اولاد
آپ کانکاح مسمات بادشاہزادی دخترمیں سلطان امیربن میاں محبوب شاہ نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ سے ہواتھا۔اس کے بطن سے اولاد ہوئی۔
آپ کے چار بیٹے تھے۔
ا۔میاں خوشی محمد رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔میاں سلطان شیر رحمتہ اللہ علیہ۔
۳۔میاں حشمت علی رحمتہ اللہ علیہ ۔
۴۔میاں دیوان علی رحمتہ اللہ علیہ۔
ان چاروں کے حالات آگے ساتویں باب میں آئیں گے۔
تاریخ وفات
میاں اکبرعلی کا وفات صحیح طورپردستیاب نہیں ہوا۔۱۸۶۲ء کی جمعبندی میں آپ کانام موجودہےاوراس کے بعد۱۸۷۴ءکی جمعبندی پرآپ کے بڑے بیٹے میاں خوشی محمد کا نام درج ہے۔جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ کی وفات کازمانہ ان بارہ سالوں کے اندرہے۔جوغالباً ۱۸۷۰ء متعین ہوتاہے۔اس کے مطابق ہجری سال ۱۲۸۷ھ تھا۔
۱؎یہ آٹھوں قلمی اصل دستاویز یں صاحبزادہ غلام سرور کیانی ایم اے کے کتب خانہ میں بمقام دڑوہ
(اکبرآباد)ضلع گجرات موجودہیں ۔یہ ان کا احسان ہے کہ یہاں درج کرنے کے لیے مجھ کو عطا فرمائیں۱۲۔شرافت
آپ کی قبرموضع دَڑوہ ضلع گجرات میں ہے۔چندسال سے آپ کی اولاد نے آپ کے نام کی نسبت
سےاس گاؤں کانام اکبرآباد رکھدیاہے۔
مادۂ تاریخ "بعصمت رفتہ"۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)