میاں میراں بخش رحمتہ اللہ علیہ
میاں میراں بخش رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ میاں سلطان بالابن الٰہی بخش نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ فرزند اکبرتھے۔بیعت طریقت اور خلافت شیخ گوہرشاہ بن شیخ ماہی شاہ سلیمانی رنملوی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔جن کاذکر چوتھےطبقہ کے نویں باب میں گذرچکاہے۔آپ والد بزرگوارکےبعد سجادہ نشین ہوئے۔
شجرہ بیعت میاں سلطان شیردڑوہ والہ کے حالات میں لکھاجاچکاہے۔
وجد و تاثیر
منقول ہے کہ ایک بارتمام اولادحضرت سچیاردرگاہَ حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ پر حاضر ہوئے۔محفل سرورمنعقدہوئی۔دیرتک قوالی ہوتی رہی ۔مگرکسی کو تاثیر نہ ہوئی۔سب کو خیال ہو ا کہ شہنشاہ کے دربارکے سامنے قوالی ہورہی ہے۔پھر وجد کیوں نہیں ہوتا۔ اس وقت آپ جوش سے اُٹھ کردربارشریف کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاقوالو۔یہ پڑھو۔
"شہربھنبھوروسندیوکُڑیونک نَتھ نہ رکھیوکائی"
اورہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔اُس وقت اتنی تاثیرہوئی کہ کُل اہل مجلس کو وجدہوگیا۔
توام لڑکے پیداہونےکی دعا
میاں محمد الدین بن نبی بخش نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے تھےکہ ایک مرتبہ میاں نواب علی سجادہ نشین جھنگی بخت جمال آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کیاکہ میرے لڑکے کی شادی ہوئی۔بیس سال گذرچکے یں۔لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی۔آپ مجھ کو ہمراہ لے کردرگاہ سچیاریہ پر حاضر ہوئے اور تین بارطواف کرکے دُعامانگی اور اُن کو بشارت دی کہ
دو لڑکے توام ہوں گے اوردونوں خوبصورت ہوں گے۔چنانچہ ایساہی ہوا۔
سرکاری تحریرات
رسید مبلغات
آپ نے دوعدد رجسٹریاں چھ سوروپیہ کی کرائیں ۔جن میں سے مبلغ چارسو روپیہ کی رسید یہ ہے۔بطوریادداشت تحریر کی جاتی ہے۔
"منکہ جیون سنگھ ولد جگت سنگھ قوم اروڑہ ساکن نوشہرہ کاہوں ۔جوکہ مبلغ چھ سو روپیہ ضرب چہرہ شاہی دوعددرجسڑی ازاں مسمی میراں بخش ولد سلطان بالاساکن نوشہرہ میرے پاس ہے۔منجملہ رجسٹری شدہ مندرجہ بالاسے مبلغ چارسو روپیہ کہ نصف جس کے مبلغ دوسوروپیہ ہوتےہیں۔ ازمسمی مذکور وصول پالیا ہے۔باقی دوسو رہاہے۔لہذایہ چند حروف بطور رسید بابت چارسوروپیہ کے لکھ دیئے ہیں۔کہ سند ہووے۔تحریربتاریخ ۲۶ ماہ جنوری ۱۸۶۷ء ۔
دل سنگھ عرائض نویس صدر گجرات
العبد جیون سنگھ ولد جگت سنگھ اروڑہ ساکن نوشہرہ
گواہ شد۔میاں خوشی محمد ولد اکبرعلی ساکن موضع دڑوہ
گواہ شد۔علی بخش ولد اللہ بخش گکھڑ ساکن نوشہرہ" بلفظہ
بیعنامہ
یہ ایک قطعہ زمین کا بیعنامہ ہے۔جوآپ نے مسمی اللہ دتہ دھارڑ ساکن نانوال سے خریدی۔
(اشٹام پرمُہرسرکاری)
"منکہ اللہ دتہ ولد علی محمد قوم جٹ گوت دہارڑ ساکن موضع نانووال تحصیل وضلع گجرات کا ہوں۔جو کہ اراضی ۲۴؎کنال ۱۴مرلہ نمبرجمبندی ۳۳۔۳۴۔۳۶۔۳۷ نمبر کھاتہ ۷۲۔۷۶۔۸۷۔۸۸جمع جس کی سال تمام للعبہ ۵(چارروپے پَونے چھ آنے)بموجب فرد پٹواری نمبرخسرہ ۱۲۷/۳۔ ۱۲۵/۱۳؎۔۱۲۵/۴۔۱۲۹/یک۔۱۳۳/معہ ۱۴۔واقع موضع نانووال میں ملکیّت بنام خوشیاد حاکوو نتھو پسران چوغطہ۔وگہناو حیات بخش پسران فتح دین۔وشرف دین وآلہ دتہ پسران محمد علی و بوٹا ولد علی محمد۔دودھیالہ ولد اللہ بخش قوم جٹ گوت دہارڑ۔بحصہ مندرجہ فردپٹواری حالامن مظہر نے ۱۶ حصّہ کی اراضی اپنی بمقابلہ مبلغ چہل روپیہ آدھے جس کے بیس روپیہ ضرت چہرہ شاہی ہوتے ہیں۔ پیش میاں میراں بخش ولد میاں سلطان بالاقوم میانہ ساکن موضع نوشہرہ کے بیع قطعی کردیتاہوں اورزربیعہ نامہ کے یک مشت روبرو گواہان حاشیہ کے وصول پائے۔قبضہ ودخل اراضی بیع شدہ کا مشتری کودیاگیا۔حالامیرادعوےٰ و دخل اراضی مذکورپر نہیں رہا۔مشتری کواختیارہے کہ اراضی مذکورکواپنے پاس رکھےیاکسی کو دے دیوے۔میراکچھ واسطہ نہیں ہے۔لہذایہ چند حروف بطور بیعنامہ کے لکھدیتاہوں کہ سندرہے۔تحریربتاریخ ۲۴ماہ مئی ۱۸۸۷ء مطابق ۱۰ جیٹھ ۱۹۴۲ بکرمی۔
بقلم اللہ دتہ اشٹام فروش
العبد۔اللہ دتہ بقلم خود۔حلیہ عمر۵۲برس قد درمیانہ رنگ ساولہ یک داغ دنبل بررانِ راست۔
گواہ شد۔گوردت سنگھ ولد گنیش سنگھ قوم اروڑہ ساکن نوشہرہ
گواہ شد۔کالوولد گھسیٹا کھتری۔ساکن علی شیر"بلفظ ۔۱؎
۱؎یہ دونوں تحریریں رسید اوربیعنامہ صاحبزادہ غلام سرورکیانی کے کتب خانہ میں بمقام دڑوہ (اکبرآباد) ضلع گجرات موجود ہیں۱۲۔سیّد شرافت
اولاد
آپ کے چار بیٹے ہوئے۔
ا۔میاں فرح بخش جوانی میں لاولد فوت ہوئے۔
۲۔میاں غلام حسین بچپن میں فوت ہوئے۔
۳۔حاجی الحرمین میاں نواب علی ۔
۴۔میاں شاہ بخش۔
؎ حاجی الحرمین الشریفین میاں نواب علی کا ذکر نویں باب میں آئے گا۔
؎ میاں شاہ بخش ۔اس وقت بعمراسی سال ۱۳۷۶ھ میں موجود ہیں۔یہ دنیاوی امورمیں
بہت قابلیّت رکھتے ہیں۔ان کے تین بیٹے ہوئے۔صاحبزادہ محمد افضل ۔صاحبزادہ محمد
اصغر۔صاحبزادہ فضل میراں۔
؎ صاحبزادہ محمدافضل نوجوانی میں۔پنجشنبہ ۳ رجب ۱۳۶۴ھ کو فوت ہوگئے۔اِن کا ایک
لڑکاصاحبزادہ جمشیدمیراں موجود ہے۔
؎ صاحبزادہ محمد اصغر بن شاہ بخش کے دوبیٹے ہیں۔صاحبزادہ اعجازمیراں۔صاحبزادہ محمد
نواز۔تینوں باپ بیٹے موجودہیں۔
یارِ طریقت
آپ کے ایک مرید سیّد زمان شاہ تھے۔جوکافی عرصہ درگاہ شریف کی خدمت میں رہے۔ان کے مرید بہت تھے۔۱۳۵۲ھ میں انہوں نے اپنے خرچ سے درگاہ سچیارپیر رحمتہ اللہ علیہ کی چاردیواری اور مسجد شریف پختہ تعمیر کروائی اور ۲۵شوال ۱۳۵۳ھ کو بعمر اسی سال انتقال کیا۔گورستان سچیاریہ میں دفن ہوئے۔
تاریخ وفات
میاں میراں بخش کی وفات بدھوار ۔سولہویں رجب ۱۳۲۴ھ میں ہوئی۔ مزار نوشہرہ شریف گورستان سچیاریہ میں ہے۔
مادۂ تاریخ "میراں بخش ہمایوں جاہ"۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)