میاں محمد اکرم رحمتہ اللہ علیہ
میاں محمد اکرم رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت اکرم برہِ قربِ حق |
بُردزمیدانِ سعادت سبق |
ازلطفِ پیر بمعراجِ قرب |
برزنہ ٔ عشق فگندہ دہق |
مصحفِ آیاتِ الٰہی مدام |
خواندہ تمامی ورقاً باورق |
مادرِ ایّام نزادہ دگر |
ثانی شاں ماند برنجِ رتق |
اشرف خاکِ درشاں سُرمہ کن |
تابرتنِ توبودازجاں رمق |
آپ میاں عبدالجلیل بن حضرت سچیار نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کے اکلوتے بیٹے تھے۔بیعت وخلافت بلاواسطہ اپنے جد بزرگوار حضرت شیخ پیر محمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ سے رکھتے تھے۔
مولوی محمد اشرف فاروقی رحمتہ اللہ نے مناقب نوشاہی میں اور مولوی حاجی سید غلام نبی حسینی جالندھری رحمتہ اللہ علیہ نے مثنوی اسراروارثی میں آپ کواپنے داداکامرید لکھاہے۔
اخلاق وعادات
آپ صاحب خلق عظیم۔حلیم الطبع۔مستجاب الدعوات ۔حسین و جمیل تھے۔ آپ کے چہرہ سے تجلّیاتِ نورچمکتے تھے۔یادِ الٰہی میں محو و مستغرق رہتے۔صوفیائے معاصرین میں عالی مرتبہ تھے۔
سماع و وجد
ایک مرتبہ آپ قصورتشریف لے گئے۔نواب خان بہادر نے پورے طورپرآپ کاحقِ مہمانی اداکیا۔قِسم قِسم کے کھانے پکوائے۔قوّال اور نقّال بھی بلوائے۔ایک شخص مطلوب خاں نامی نے ازراہ ِتمسخرکہاکہ یہ فقیر اب قوالی سن کر خوب وجد کریں گےاورناچیں کودیں گے۔آٹھ پہر یہ تماشااچھارہے گا۔آپ نے جب یہ بات سنی تو فرمایاکہ ہمار ے درویش سرود کے محتاج نہیں کہ صرف قوالی سن کرہی وجد کریں۔بلکہ یہ لوگ دولابِ چاہ کی آواز پربھی وجد کرسکتے ہیں۔ان کا وجدوحال کرایہ پر نہیں ہوتا۔چنانچہ ایساہی ہواکہ دودن قوالی ہوتی رہی ۔مگرکسی کو بھی وجدنہ ہوا۔بلکہ تھوڑی سی تاثیر بھی نہ ہوئی۔آخر مطلوب خاں آکراپنےکلام سے تائب ہو ا۔توپھر آپ کی توجّہ کی سےسب کووجد ہونے لگا۔۱؎
ایک منکر کووجدہونا
ایک مرتبہ آپ قصورمیں اپنے مرید نواب سعادت خاں کے پاس تشریف لے گئے۔محفل سماع منعقد ہوئی۔درویشوں کو وجدہونے لگا۔ایک شخص محمد خاں نام نے ہنسی کی ۔آپ نے پوچھایہ کیاکرتاہے ۔حاضرین نے کہاکہ وجد کرنے والوں کو ٹھٹھے کرتاہے۔ آپ نےفرمایااس کوکچھ نہ کہناپھرشہمیر اقوال کو فرمایاایک سُر لگاؤ۔جب اُس نے آواز نکالی تو اسی وقت محمد خاں بیہوش ہوکرگرپڑااوردیر تک مجلس میں وجد کرتارہا۔آخر آپ نے توجّہ فرمائی تو ہوش
میں آیااور آپ کے زمرۂ خدام میں داخل ہوا۔۲؎
ایک صاحب وجد مریدکاآگ میں محفوظ رہنا
آپ کاایک مرید نواب سعادت خاں قصوری کانوکرتھا۔ایک دفعہ سردیوں میں رات کو آگ سلگاکرنواب کے آگے رکھی ہوئی تھی اور خود کھڑاتھا۔اتفاقاً ایک شخص نورخاں نامی نے وہاں آکر دوتارہ بجاناشروع کیا۔اس کو آواز سنتے ہی وجدہوگیااور نعرہ مارکرجلتی آگ میں گرپڑااورجلتے کوئلےمُٹھی میں آگئے۔دیر تک وجد کرتارہا۔ جب ہوش میں آیاتو سراور داڑھی کے بال جھاڑ کااُٹھ کھڑاہوا۔کسی قسم کی اس کو تکلیف نہ پہنچی۔۳؎
تلوار سے وجد کا امتحان
آپ کاایک خلیفہ بمعہ اپنے پیر بھائیوں سعادت خاں قصوری وغیرہ کے دہلی گیا۔وہاں سماع ہوا۔درویشوں کو وجدہونے لگا۔دیکھنے والوں کاحجوم تھا۔ دوغالی رافضی آئے اور اہل وجد کی تکذیب ومسخری کرنے لگے۔اُس خلیفہ نے کہاکہ اگرتم کواہل حال کی وجد کی سچائی دیکھنی مطلوب ہے توتلوار لے کر ان کومارو اور آزمائش کرلو۔انہوں نے اسی طرح کیا۔سات روز تک قوالی اور وجد ہوتارہااوروہ ہرروز آکرتلواریں مارمار کر امتحان کرتے رہے۔لیکن کسی کے جسم پر کوئی اثرنہ ہوا۔بلکہ خراش تک ظاہر نہ ہوئی۔آخر وہ دونوں تائب ہوکرخلیفہ کے حلقہ ارادت میں آگئے۔۱؎
۱؎تحائف قدسیہ۱۲۔۲؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۳؎ تحائف قدسیہ ۱۲۔سید شرافت
دریاکو ہٹانا
منقو ل ہے کہ ایک شخص محمدعثمان نامی آپ کی خدمت میں آیااور عرض کیا کہ دریاہماری زمین کو گرارہاہے۔ہمارے حال پر توجہ فرمائی جاوےآپ ازراہ ذرہ نوازی بمعہ مریدوں کے دریاپر تشریف لے گئےاورکنارہ پر بیٹھ کروضوکیااورفرمایااے دریا۔زمین کواپنے پیٹ میں لینے والے۔یہاں سے جگہ چھوڑدے۔چانچہ اسی وقت دریاوہاں سے پیچھے ہٹ گیااوردوسرے کنارہ کی طرف رُخ کیا۔۲؎
خشک درخت کاسبزہونا
ایک مرتبہ دریائے چناب کی طغیانی سے اکثر زمین نوشہرہ کی دریابُرد ہوگئی۔ایک دن آپ سیر کرتے ہوئے دریاکی طرف جانکلے۔وہاں دیکھاکہ ایک بڑا درخت زمین پر خشک ہواپڑاہے۔لوگوں سے پوچھایہ کیسادرخت ہے؟ سب نے عرض کیاجناب یہ بوہڑ کا درخت تھا۔چھ ماہ ہوگئے کہ دریانے گرادیاتھا۔اب اس جگہ پڑاہے۔آپ نے فرمایاکہ اس کو پھرلگادینا چاہیئے۔حاضرین نے کہاکہ یہ تو بالکل خشک ہوچکاہے۔اب دوبارہ کس طرح لگ سکتاہے۔ حضورنے فرمایاخداوند تعالیٰ مُردوں کو زندہ کرسکتاہے۔تو کیا اس کو سرسبزنہیں کرسکتا۔چنانچہ پھر اس کولگادیاگیا۔توآپ کی دعاسے
ایساہرابھراہواکہ پہلے سے بھی زیادہ سایہ دار ہوگیا۔۳؎
۱؎،۲؎،۳؎تحائف قدسیہ ۱۲۔ سید شرافت
قبرکے لیے جگہ ملنا
منقول ہے کہ جب آپ کاوقتِ وفات قریب آیاتوحاضرین کو فرمایاکہ ہماری قبروالد بزرگواراور جدامجدکے درمیان بنانا۔اگروہ جگہ نہ دیں تو قبرنہ بنانا۔آپ کافرمان سن کر سب درویش چپ ہوگئے۔کیونکہ دونوں مزارات میں کوئی تفاوت نہیں تھی ۔آخر شیخ رحمت اللہ شاہ بیگووالیہ خانقاہ سچیاریہ میں گئےاور آپ کا پیغام سُنایا۔چنانچہ اُس وقت دونوں قبریں پیچھےہٹ گئیں اور بیچ میں فراخ جگہ قبر کے واسطے نکل آئی۔آپ نے یہ بشارت سن کردنیاسے انتقال فرمایا۔۱؎
منقول ہے کہ حضرت شہمیر قلندرلاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے جب آپ کی وفات سنی توبہت روئےاور فرمایاآج دنیاسے سرتاجِ اولیأکاانتقال ہوا۔
اولاد
آپ کا نکاح حضرت مہتاب بی بی بنت ملک شیر محمدکھوکھروزیرآبادی سے ہوا۔یہ بھکھڑیالی والے خاندان سے تھیں۔جوشاہانِ مغلیہ کی طرف سے جاگیردارتھے۔انہیں کے بطن سے اولادہوئی۔آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔میاں سلطان محمد رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔میاں محبوب شاہ رحمتہ اللہ علیہ ۔
۳۔میاں سلطان شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص مرید یہ تھے۔
۱۔میاں سلطان محمد رحمتہ اللہ علیہ ۔فرزند اکبر نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۲۔میاں محبوب شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔فرزنددوم نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۳۔میاں سلطان شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔فرزندسوم نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۴۔شہمیر قوال نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۵۔میاں حسن بن خواجہ بخت جمال وڑائچ جھنگی بخت جمال گورداسپور
۶۔نواب سعادت خاں افغان قصور لاہور
۷۔مرزامحمد خاں افغان قصور لاہور
۸۔نواب خان بہادر قصور لاہور
۹۔مطلوب خاں قصور لاہور
۱۰۔جماعت علی شاہ۔صاحب سلسلہ تھے۔ قصور لاہور
مدح شریف
آپ کی تعریف میں علّامہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نےثواقب المناقب میں یہ دو شعرلکھے ہیں
دلِ اومطلعِ صبح کرامت |
نصیبِ طالعِ بدخواہ شامت |
حسودازغیرتِ اوزندہ درگور |
سگِ درگاہ اوشیرانِ پُرزور |
تاریخ وفات
میاں محمد اکرم کی وفات بروزسہ شنبہ ۲۶ ذیقعدہ ۱۱۶۸ھ میں ہوئی آپ کی قبرنوشہرہ شریف میں اپنےوالد بزرگواراور جد امجدکے درمیان واقع ہے۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔ ازآیت شریف ھُوَالّذِی یُصَوِّرُکُم ۱۱۲۸ھ
۲۔ بابامرشدِ حقیقت ۱۱۲۸ھ
شجرہ فقرائے میاں محمد اکرم
جماعت علی شاہ۔۔ہدایت علیہ شاہ۔۔کرم علی شاہ۔۔امیرعلی شاہ۔۔مرجانے شاہ۔۔رلدوشاہ۔۔ شیرشاہ مراسی۔۔شہاب الدین چک ۲۱۶۔۔سائیں محمد شریف جلال آباد چک ۲۱۶گ ب ضلع لائل پورمیں ہے اپنے مرشد کا گدی نشین ہے۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)