میا نتھا قادری
میا نتھا قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ محمد میاں میر لاہوری کے خاص الخاص مرید تھے۔ تمام عمر مرشد گرامی ہی کی خدمت میں بسر کی۔ حضرت شیخ کسی دوست و مرید کو رات کے وقت سوائے میاں نتھا کے اپنے پاس نہ رکھتے تھے۔ میاں نتھا پر حالتِ استغراق و بے خودی کا اتنا غلبہ رہتا تھا کہ دنیا وما فیہا کی کچھ خبر نہ رہتی تھی۔ روایت ہے ایک درویش جونپور سے آپ کی ملاقات کے لیے آیا۔ میاں نتھا نے اس سے پوچھا: کون ہو، کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا: میں جونپور سے آپ کی ملاقات کے لیے آیا ہوں تاکہ آپ کے نام و عرف اور حسب و نسب سے آگاہی حاصل کروں۔ میاں نتھا نے کہا: میرا نام نتھا ہے۔ قوم کا پراچہ کنجد کش ہوں۔ حضرت میاں میر کا کمترین خادم ہوں۔ میرا حال یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے عالمِ جبروت و ملکوت و لاہوت کی کنجیاں مجھے عطا کردی ہیں۔ جس وقت چاہتا ہوں عالمِ ملکوت[1] و عالمِ جبروت[2] و عالمِ لاہوت[3] کا دروازہ کھول کر داخل ہوجاتا ہوں۔ شہزادہ محمد داراشکوہ اپنی کتاب سکینۃ الاولیاء[4] میں رقم طراز ہیں کہ نباتات و جمادات تک میاں نتھا سے ہم سخن ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک روز میاں نتھا ایک جنگل سے گزر رہے تھے کہ ایک درخت سے آواز آئی: اگر قلعی کو چرخ دے کر اس پر میرے پتے ڈالے جائیں تو وہ چاندی ہوجائے گی۔ میاں نتھا نے یہ سن کر کوئی جواب نہ دیا۔ آگے بڑھے تو دوسرے درخت سے آواز آئی: اگر تانبا کو چرخ دے کر میری تھوڑی سی لکڑی اس میں ڈالی جائے تو زرِ خالص بن جائے گا۔ میاں نتھا اس پر بھی متوجہ نہ ہوئے اور آگے بڑھ گئے اور ایک گنبد میں سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو گنبد سے آواز آئی: ذرا ٹھہریے۔ پوچھا تو کون ہے؟ کہا: میں یہی گنبد ہوں جس میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کو روکنے کی وجہ یہ ہے کہ بارش آ رہی ہے۔ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو۔ ذرا بارش تھم لے تو چلے جائیں۔ چنانچہ یہ گفتگو ہورہی تھی کہ بارش ہونی شروع ہوگئی۔
نقل ہے کہ ایک روز میاں نتھا نے راستے میں ایک مرے ہوئے چوہے کو دیکھا، جس کا گوشت پوست بھی گل سڑ چکا تھا۔ آپ کی نظر جونہی اس پر پڑی تو کہا، ارے تو راستے میں اس حالت میں کیوں پڑا ہے۔ اپنے سوراخ میں کیوں نہیں جاتا۔ چوہا اسی وقت زندہ ہوکر اپنے سوراخ میں چلا گیا۔
روایت ہے کہ ایک روز میاں نتھا خدمتِ مرشد میں حاضر تھے۔ شخ نے پوچھا: کیوں بھئی میاں نتھا آج کس طرف جاکر مشغولِ ذکر حق ہوئے۔ عرض کیا: حضرت پہلے تو موضع اچھرہ کے گرد و نواح میں مشغولِ ذکر و فکر تھا مگر وہاں کے درخت تسبیح سبحان اللہ والحمدللہ بلند آواز سے پڑھتے تھے کہ اُن کے ذکر سے میرے اشغال میں خلل پڑتا تھا۔ میں وہاں سے اٹھ کر محلۂ خلیفہ جنید کے ایک گوشے میں جا بیٹھا وہاں سکون کے ساتھ مشغولِ ذکر و فکر ہوگیا۔ حضرت شیخ میاں نتھا کی یہ بات سن کر متبسم ہوئے اور فرمایا: سبحان اللہ اس لڑکے کا معاملہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے اور کیسی کیسی بلند باتیں کرتا ہے۔
نقل ہے ایک روز میاں نتھا، ملا محمد سیالکوٹی اور حضرت شیخ میاں میر حجرے کے باہر سایۂ دیوار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک بارش آگئی اور ساتھ ہی تیز ہوا بھی چلنی شروع ہوگئی۔ شیخ نے فرمایا اب ناچار یہاں سے اٹھنا ہی پڑے گا۔ میاں نتھا نے عرض کیا: حضور فرمائیں تو ابھی اس باد و باراں کو لوٹادوں۔ حضرت شیخ نے برہم ہوکر فرمایا: اچھا تو اب اظہارِ کرامت اور خود فروشی بھی کرتا ہے۔ ہمیں یہاں سے اٹھ کر حجرے میں جانا ہی پڑے گا۔ بھلا حجرے میں بیٹھنے میں کون سا نقصان ہے کہ ہم کارِ الٰہی میں دخل دیں۔ فعل المحمود محمود۔
باوجود یہ کہ میاں نتھا محض اَن پڑھ تھے مگر مرشد کے فیضِ نظر سے علومِ ظاہر و باطنی اُن پر منکشف تھے۔ ۱۰۲۷ھ میں وفات پائی۔ آپ کی وفات کی خبر سن کر حضرت شیخ نے باچشم پر نم فرمایا: فقیر خانہ کی رونق میاں نتھا لے گئے اور آخری وقت اپنے خدام سے وصیت فرمائی کہ جہاں میاں نتھا مدفون ہے مجھے اس کے قریب دفن کیا جائے۔
حضرت نتھا کہ ولئ خدا ست |
|
عارفِ حق واقفِ علم الیقیں |
[1]۔ عالم فرشتگاں و عالم معنی اس کو عالمِ غیب و عالمِ ارواح بھی کہتے ہیں نیز طاعت بے قصور و بے فتور۔ مقام عبادتِ فرشتگاں ہے۔
[2]۔ عظمت و بزرگی، اسمائے صفات الٰہی، مرتبۂ وحدت و حقیقت محمدی۔
[3]۔ عالم ذات۔ اسی مقام پر سالک کو فنا فی اللہ کا رتبہ حاصل ہوتا ہے۔
[4]۔ ۱۰۵۲ھ میں لکھی گئی۔ اس میں داراشکوہ نے اپنے پیر ملا شاہ بدخشانی کے مرشد حضرت میاں میر کے حالات و ملفوظات پوری تفصیل سے لکھے ہیں۔ داراشکوہ کی دوسری قابلِ قدر تالیف سفینۃ الاولیاء ہے اس میں قریباً چار سو سے کچھ اوپر صوفیا و صلحا و علما کے حالات درج ہیں۔