مولانا حافظ برخوردار ابن حضرت نوشاہی عالیجاہ کے فرزند سوم تھے۔ صاحبِ علم و عمل تھے۔ زہد و ورع، عبادت و ریاضت ،اور سخاوت و شجاعت، میں شہرۂ آفاق تھے۔ جب آپ پیدا ہوئے تھے آپ کے دادا حضرت نوشاہ گنج بخش نے آپ کے لیے دعائے درازی عمر فرمائی تھی۔ چنانچہ آپ نے طویل عمر پائی۔ بڑے پُر جلال تھے۔ ایک دفعہ حاک ۔۔۔۔
مولانا حافظ برخوردار ابن حضرت نوشاہی عالیجاہ کے فرزند سوم تھے۔ صاحبِ علم و عمل تھے۔ زہد و ورع، عبادت و ریاضت ،اور سخاوت و شجاعت، میں شہرۂ آفاق تھے۔ جب آپ پیدا ہوئے تھے آپ کے دادا حضرت نوشاہ گنج بخش نے آپ کے لیے دعائے درازی عمر فرمائی تھی۔ چنانچہ آپ نے طویل عمر پائی۔ بڑے پُر جلال تھے۔ ایک دفعہ حاکمِ پرگنہ نے ادائیگیِٔ مال کے لیے اپنا پیادہ بھیجا۔ اس پر جلال میں آگئے۔ اُسی وقت حاکم پرگنہ کے پاس گئے۔ فرمایا کہ جب میں خودبخود مالیہ ادا کردیتا ہُوں تو پھر پیادہ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی تُو مسندِ حکومت کے لائق نہیں ہے تجھے معزول کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہُوا۔ اسی روز صوبہ دارِ لاہور کی طرف سے اسے اپنا معزولی نامہ وصول ہوگیا۔
مسمّی نور محمد ترکھان جو آپ کے خادموں سے تھا، موضع باہو کی میں کھیتی باڑی کرتا تھا وہاں کے مقدم مہربان نامی نے کچھ لگان بڑھا کر ایک سوار وصولی کے واسطے نور محمد کی طرف بھیجا، اس نے یہ واقعہ آپ کے گوش گزار کیا۔ آپ مہر بان کے پاس تشریف لے گئے اور اس کو نصیحت کی، وُہ باز نہ آیا۔ اس بات سے آپ جلالت میں آگئے اور دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور کہا کہ تم کو خدا تعالیٰ ویران کردے گا، اُٹھ کر گھر چلے آئے۔ ابھی آپ رستہ میں ہی تھے کہ اتفاقاً غیب سے اس گاؤں میں کہیں سے آگ لگ گئی اور سارا گاؤں جل کر راکھ ہوگیا۔
نقل ہے ایک روز آپ شکار کے لیے تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ ساہن پال کے کچھ زمیندار بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں محمد قلی نامی ساہن پال کے بیٹے نے اپنی گھوڑی دوڑا کر آپ کے گھوڑے سے آگے بڑھائی اور جاتے جاتے ایک کوڑا آپ کے گھوڑے کو بھی مارا۔ آپ نے اُسے بہ نگاہِ غضب دیکھا اور فرمایا۔ اب تُو گھوڑی پر سوار نہیں ہوسکے گا۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گیا تھا کہ اس کی گھوڑی جس کی قیمت قریباً چھ سات سو روپے تھی گِر کر فوراً مرگئی۔ پھر اس واقعہ کے بعد اس پر تنگ دستی و بدحالی ایسی مسلّط ہُوئی کہ مرتے دم تک خوشحال نہ ہوسکا اور کبھی گھوڑی میسر نہ ہوئی۔ ۱۱۶۷ھ میں وفات پائی۔ مزار ساہن پال مین اپنے جدِ بزرگوار کے متصل ہے۔
شد چو رحمت ازیں جہاں پدر ور ’’رحمت اللہ ولئِ رہبر‘‘ نیز ۱۱۶۷ھ
|
|
ہست تاریخِ آں شہِ ابرار! ’’رحمت اللہ معدن الانوار‘‘! ۱۱۶۷ھ
|