محترم صالح سراج الدین بن عثمان حنفی نقشبندی ڈیروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ اخی سراج کے نام سے مشہور تھے اور شیخ نطام الدین اولیاء کے جلیل القدر خلفاء میں سے تھے، خواجہ نظام الدین کے مریدوں میں آپ اور شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے دونوں سلسلے بہت مشہور ہیں، عین جوانی کے وقت جبکہ آپ کی داڑھی کے بال تک نہ نکلے تھے خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید ہوئے اور چند برس آپ کی خدمت میں رہنے کے بعد اپنی والدہ کی خدمت کے لیے لکھنؤ تی جس کا موجودہ نام گور ہے تشریف لے گئے، چند روز وہاں قیام فرمانے کے بعد پھر واپس شیخ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، خلافت دیتے وقت آپ سے شیخ نے فرمایا کہ اس کام میں پہلا مقام علم کو حاصل ہے اور شیخ میں ابھی اتنا علم نہیں ہے، اس پر اس وقت جو لوگ موجود تھے ان میں سے مولانا فخرالدین زرداری نے عرض کیا کہ میں انہیں چھ ماہ میں عالم بنادوں گا، چنانچہ شیخ سراج نے مولانا زرداری سے علم حاصل کیا، مولانا زرداری نے ان کے لیے ایک کتاب بھی بنام عثمانی بھیجی، اس کے بعد شیخ سراج نے مولانا رکن الدین سے کافیہ، مفصل قدوری اور مجمع البحرین پڑھیں، اور حضرت خواجہ نظام الدین کے انتقال کے بعد مزید تین برس تک دیگر درسی کتب کی تحصیل کی پھر شیخ کے موقوفہ کتب خانے سے چند کتابیں، کچھ کپڑے اور خلافت نامہ جو شیخ نے آپ کو دیا تھا لے کر اپنے مقام لکھنؤتی تشریف لے گئے اور دیار کو ولایت کے جمال سے مزین کیا، شیخ نے عین حیات میں آپ کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ ہندوستان کا آئینہ ہے۔
شیخ سراج نے اپنے شیخ سے جو خرقہ وغیرہ حاصل کیا تھا اسے زمین میں دفن کیا اور اس پر قبر بنادی اور انتقال سے پیشتر اپنے ورثاء کو یہ وصیت کی کہ مجھے کپڑوں والی قبر میں دفن کیا جائے چنانچہ بعد انتقال لوگوں نے ایسا ہی کیا، آپ کے خلفاء شہر گور میں مشہور ہیں جو اب تک بھی موجود ہیں، آپ کا قیام بھی اسی شہر میں تھا، شیخ حسام الدین مانکپوری کے ملفوظات میں ہے کہ شیخ سراج الدین عثمان اودھی کے پاس ایک سہروردی درویش مہمان ہوا، عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد شیخ سراج کپڑے اتار کر اپنے بستر پر سوگئے اور وہ درویش رات بھر نماز و عبادت میں مشغول رہا، صبح کو بستر سے اٹھ کر شیخ نے رات کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی، یہ دیکھ کر اس درویش نے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ آپ تمام رات تو سوتے رہے اور نماز فجر بھی بغیر وضو ادا کی، شیخ سراج نے نہایت ہی متواضعانہ انداز میں کہا کہ آپ بزرگ ہیں ، آپ نے تو تمام رات ہی عبادت میں گزار دی اور ہم سامان رکھتے ہیں اور چور تاک میں ہے اس لیے ہم اس کی حفاظت کرتے رہے
اگر عاشق بہ مسجد در نیا مد!
دل عاشق ہمیشہ در نماز است
ترجمہ: (اگر عاشق (حقیقی) عبادت کے لیے مسجد (کسی عذر کی وجہ سے) نہیں آسکتا لیکن اس کا دل ہمیشہ نماز میں مشغول ہے)
(اخبار الاخیار)
صوفی خوشلقا زاہد دلربا مولانا سراج الملۃ والدین عثمان ہیں جو تقوی و طہارت اور زہد و ورع اور مکارم اخلاق اور لطافت طبع میں مشہور اور دوسرے یاروں میں ممتاز و موصوف تھے اور جو سلطان المشائخ کے خلفا میں ایک معزز خلیفہ تھے ان کو لوگ اخی سراج بھی کہتے تھے جو لوگ ملک اودھ اور دیار ہندوستان سے سلطان المشائخ کے غلاموں کے سلسلہ میں داخل ہوئے یہ ان سب سے ارادت میں سابق تھے۔ سلطان المشائخ کا نفس مبارک ان ہی کے حق میں باین مضمون جاری ہوا ہے کے مولانا سراج الدین آئینہ ہندوستان ہے۔ آپ میں عالم جوانی میں کہ ہنوز ڈاڑھی کے بالوں کا آغاز نہ ہوا تھا۔ لکھنوتی سے آئے اور سلطان المشائخ کے آستانہ پر سرارادت رکھا اور ان یاروں کی صحبت میں پرورش پائی جو سلطان المشائخ کی خدمت و ملازمت میں ہمیشہ زندگی بسر کرتے تھے جب سال تمام ہوجاتا تو آپ اپنی والدہ مکرمہ کو دیکھنے لکھنوتی چلے جاتے اور پھر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ آپ بیشتر اوقات سلطان المشائخ کی خدمت میں مجرد الحال اور فارغ البال رہتے اور سلطان المشائخ کے جماعت خانہ کے ایک گوشہ میں اپنی عمر عزیز بسر کرتے حتی کہ کاغذ اور کتاب کہ اس کے علاوہ کوئی سامان و اسباب آپ کے پاس نہ تھا۔ یہ بھیسب کتابت خانہ اور جماعت خانہ میں رکھتے۔ الغرض جب بعض اعلیٰ یاروں کو سلطان المشائخ کے فرمان کے بموجب لوگوں نے خلافت کے لیے منتخب کیا تو ان میں ان بزرگ کو بھی شامل کیا اور جب ان تمام بزرگوں کے نام نامی سلطان المشائخ کے سامنے لیے گئے تو مولانا سراج الدین کے بارے میں ارشاد ہوا کہ اس کام میں سب سے پہلا درجہ علم کا ہے اور مولانا سراج الدین علم سے چنداں حصہ رکھتے نہیں جوں ہی یہ بات مولانا فخر الدین زادی کے کان میں پہنچی آپ کی زبانِ مبارک سے نکل گیا کہ میں اسے چھ مہینے میں عالم متبحر اور دانشمند کامل بنادوں گا چنانچہ مولانا سراج الدین نیکبر سنی میں علم پڑھنا شروع کیا اور کاتب حروف کے ساتھ آغاز تعلم میں میزان اور تصریف اور قواعد اور اس کے مقدمات کی تحقیق کی۔ خود مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لیے ایک مختصر و مفصل تصریف تالیف کی اور اس کا نام عثمانی رکھا۔ جب تک مولانا فخر الدین غیاث پور میں رہے آپ کو برابر پڑھاتے رہے بعدہ آپ مولانا رکن الدین اندر پتی کی خدمت میں پہنچے اور کاتب حروف کے ساتھ کافیہ۔ مفصل۔ قدوری۔ مجمع البحرین کی تحقیق میں مصروف رہے بہت تھوڑے دنوں میں افادت کے مرتبہ میں پہنچ گئے اور سلطان المشائخ کے خلافت نامہ سے جس پر حضور کی مہر کا نشان تھا مشرف ہوئے۔ قبل اس کے کہ مولانا سراج الدین ہندوستان کا عزم کرتے شیخ نصیر الدین محمود خلافت نامہ لے کر اودھ میں پہنچے۔ اس کے بعد آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اب بھی تعلیم و تعلم میں مشغول رہے جب سلطان المشائخ جنت میں تشریف لے گئے تو اس کے تین سال بعد تک بھی تعلیم و تعلم میں مستغرق رہے اور سلطان المشائخ جعل اللہ الجنتہ مثواہ کے خطیرۂ اقدس میں گنبد کے اندر رہے۔ جب مخلوق دیار دیوگیر کی طرف جلا وطن کی گئی تو مولانا سراج الدین لکھنوتی میں تشریف لے گئے اور کچھ کتابیں حضرت سلطان المشائخ کے کتاب خانہ سے جو طلبہ کے لیے وقف تھا مطالعہ کے لیے ساتھ لیتے گئے۔ علاوہ اس کے سلطان المشائخ کے وہ کپڑے جو آپ نے وقتاً فوقتاً حضور سے پائے تھے وہ بھی ساتھ لے گئے اور اس طرف کے شہروں کو اپنے جمال ولایت سے آراستہ و منور کیا اور خلق خدا سے بیعت لینی شروع کی۔ چنانچہ اس ملک کے بادشاہ آپ کے مریدوں کے سلسلہ میں داخل ہوئے۔ مولانا سراج الدین نے عمر بہت پائی اور نہایت مقصدوری اور کامیابی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ آپ نے آخر عمر میں مولانا رکن الدین اندر پتی کے لیے جو آپ کے استاد تھے اور کاتب حروف کے واسطے جو آپ کا ہم سبق تھا بطریق یادگار چند تنکہ چاندیکے روانہ کیئے اور پچھلے حقوق کی رعایت کما حقہ مرعی رکھی (حق تعالیٰ ان سے قبول فرمائے آمین۔) جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آلگا تو اطراف لکھنوتی میں اپنے مدفن کے لیے ایک نہایت عمدہ مقام پسند کیا اول اس مقام میں آپ نے سلطان المشائخ کے وہ کپڑے جو اپنے ہمراہ لے گئے تھیبہ تعظیم تمام دفن کئے اور اسے بصورت قبر بنایا بعدہ جب انتقال ہونے لگا تو وصیت کی کہ مجھے سلطان المشائخ کے کپڑوں کی قبر کی پائینتی دفن کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب آپ کا وصال ہوا تو سلطان المشائخ کے کپڑوں کی قبر کی پائینتی آپ کا مدفن قرار پایا رحمۃ اللہ علیہ رحمۃً واسعتہ۔ مولانا سراج الدین کا روضہ متبرکہ سلطان المشائخ کے کپڑوں کی برکت سے قبلۂ ہندوستان ہے اور آپ کے خلفا اس زمانہ تک ان شہروں میں خلق خدا سے بیعت لیتے ہیں۔
(سِیَر الاولیاء)