علی المعروف با لمولیٰ عران الطوسی: بڑے عالم فاضل اور تفسیر و حدیث خلاف وغیرہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔علم اپنے ملک کے علماء و فضلاء سے پڑھا اور رتبۂ کمال کو پہنچے پھر روم میں تشریف لائے اور سلطان مراد خاں بن مراد خاں نے قسطنطیہ کو مفتوح کیا تو اس نے آٹھ مدارس بنوائے جن میں سے ایک آپ کو متعین کیا چنانچہ ایک دن سلطان مراد خاں آپ کے پاس مدرسہ میں آیا اور حکم دیا کہ میرے رو برد طلباء کو سبق پرھاؤ،پس آپ دائیں طرف بادشاہ کے بیٹھ گئے اور وزیر محمود پاشا کھڑارہا،طلباء آئے اور انہوں نے سید شریف کی شرح عضد کا حاشیہ پڑھنا شروع کیا پس خوش ہوگیا اور دس ہزار در مرمع خلعت آپ کو اور پانسو درم ہر ایک طالب علم کو انعام عطا کیا پھر آپ کو اور مولیٰ خواجہ زادہ مصلح الدین مصطفیٰ بن یوسف کو حکم کیا کہ امام غزالی کی کتاب تہافۃا انفلاستہ اور حکماء کے درمیان ایک ایک کتاب بطور محاکمہ کے لکھیں پس کواجہ زادہ نے تو چار مہینے میں اور مولیٰ طوسی نے چھ مہینے کے عرصہ میں دخر نام سے ایک ایک کتاب لکھی۔سلطان نے ان دونوں کو دس دس ہزار روم انعام عطا کیا لیکن خواجہ زادہ کو ایک عمدہ بچہ اشتر کا زیادہ دیا کیونکہ علمائے نے خواجہ زادہ کی کتاب کو ترجیح دی تھی اس سے مولیٰ طوسی کی طبیعت مکدر ہوگئی اور وہاں سے عجم میں آئے جب تبریز میں پہنچے تو وہاں شیخ عبد الالٰہی صوفی سے ملاقات کی پھر ماوراء النہر میں جاکر خواجہ عبید اللہ سمر قندی کی خدمت میں مشرف ہوئے اور ان سے بڑے فیوض باطنی حاصل کیے۔آپ کی تصنیفات سے سید شریف کی شرح مواقف کا حاشیہ اور انہیں کے حاشیہ کشاف کے حواشی اور انہیں کے ھاشیہ شرح مطالع کے حواشی مشہو ر و معروف ہیں۔سمر قند میں ۸۸۷ھ میں فوت ہوئے،’’رفیع منزلت‘‘ تاریخ وفات ہے۔
طوسی طرف کے طوس کے منسوب ہے جو خراسان میں ایک شہر دو شہروں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک کا نام بران اور دوسرے کا اوقان ہے اور ہزار گاؤں سے زیادہ گاؤں ان کے متعلق ہیں،زمانہ حضرت عثمان میں ۲۹ھ میں یہ فتح ہوا تھا۔
(حدائق الحنفیہ)