محمد بن سلیمان بن سعد بن مسعود رومی الشہیر بہ مولیٰ محی الدین کافیجی: امامِ محقق،علامۂ زمانہ تھے،فقہ و حدیث وتفسیر میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ معقولات و منقولات کے جامع تھے۔اصول فقہ،کلام،تصریف اعراب،معانی، بیان،جلد،منطق،فلسفہ،ہئیت میں استاذ الاساتذہ تھے،۷۸۸ھ میں پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالتے ہی علم میں مشغول ہوگئے اور بلادِ عجم و تاتار میں جاکر بڑے بڑے علماء و فضلاء مچل مولیٰ شمس الدین محمد بن حمزہ فناری اور حافظ الدین محمد بن محمد بن شہاب بزازی اور برہان حیدر تلمیذ تفتازانی اور عبد اللطیف بن فرشتا شارح مجمع اور شیخ واجدو غیرہم سے علم پڑھا اور قاہرہ میں اشرف برسبائی کے عہد میں تشریف لے گئے ج ہاں آپ کی فضیلت ظاہر ہوئی اور اعیان وارکان نے آپ سے اخذ کیا اور شیخونیہ کی مشیخت بعد ترک ابنِ ہمام کے آپ کے سپرد ہوئی۔کافیجی آپ کو اس لیے کہا کرتے تھے کہ کتاب کافیہ سے جو نحو میں ہے،بڑا شغل رکھا کرتے تھے۔
سیوطی نے لکھا ہے کہ میں آپ کی خدمت میں چودہ برس رہا اور آپ سے کتب تحقیقات اور عجائب کو سُنا۔اہلِ تصوف کے حق حسن الاعتقاد اور اہلِ حدیث کے بڑے محب تھے باجود کبرسنی ے کثیرالعبادۃ کثیر الصدقہ سلیم الفطرۃ صبور و متحمل تھے۔مجھ سے ایک دن فرمانے لگے کہ زید قائم کا اعراب کیا ہے میں نے کہا کہ مقام صغیرہ میں بھی ہم سے یہ سوال کیا گیا تھا اپ نے فرمایا کہ اس میں ایک سوتیرہ بحث ہیں،میں نے عرض ک کہ جب تک میں ان کو حاصل نہ کروں گا۔آپ مجلس سے نہ اٹھوں گا وہ بتاتے گئے اور میں نے ان کو لکھ لیا۔
آپ کی تصنیفات علوم عقلیہ میں اس قدر تھیں کہ میں نے آپ سے ان کے نام پوچھے تاکہ آپ کے ترجمہ میں ان کو لکھوں مگر وہ شمارنہ کر سکے اور جن کے نام آپ نے بتائے وہ میں بھول گیا جو اکثر مختصرات تھیں اور ان میں سے اجل وانفع شرح قواعداعراب اور شرح کلمتی الشہادۃ اور مختصر فی الحدیث اور مختصر تفسیر نام ہے۔وفات آپ کی جمعہ کی رات ۴؍ماہ جمادی الاولیٰ ۸۷۳ھ میں اسہال کے مرض سے واقع ہوئی۔’’خدا وندراز‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)