شیخ طریقت حضرت مولانا عبدالغفار شاہ کشمری قدس سرہ
شیخ طریقت حضرت مولانا عبدالغفار شاہ کشمری قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت پی محمد عبد الغفار شاہ ابن پیر احمد شاہ ابن مپیر مصطفی شاہ ( قدست اسرارہم )شیخ مسعود نروری ( مدفون محلہ نرورہ سری نگر ) کی اولاد امجاد سے تھے ۔ااپ کے دادا حضرت پیر مصطفی شاہ کشمیر سے آکر ضلع ملتان کے ایک ویرانہ مین بیٹھ گئے جو آپ کے قدوم کی برکت سے آباد ہو گیا اور اس مقام پ چک ۵۷/۱۵۔ اسی کی بنیاد رکھی گئی۔اس چک میں پیر مصطفی شاہ کا مزار مرجع خلائق ہے ، پیر عبد الغفار شاہ اسی چک میں متولد ہوئے اور ابھی گیارہ برس کے تھے کہ آپ کے والد ماجد لاہور تشریف لے آئے ۔ لاہور ہی میں حضرت پیرصاحب نے علوم دینیہ کی تحصیل و تکمیل کی ، یہیں آپ کا نکاح سادات کے ایک گھرانے میں ہوا لیکن ووہی برس بعد آپ کی اہلیہ داغ مفارقت دے گئیں ۔ اس کے بعد پیر صاحب نے دوسری شادی نہیں کی ، صرف ایک فرزند پیر محمد اشرف موحوم آپ کی یاد گار تھے[1]
حضرت پیر عبد الغفار شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ مسجد حنفیہ تکیہ سادھوان لاہو کے امام و خطیب اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں منسلک تھے مگر اس وقت ہمیں ان کے پیر و مرشد کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔آپ جید عالم اور عاشق رسول مقبول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) تھے۔ تمام عمر درود شریف کے مجموعے چھاپ کر تقسیم کرتے رہے،علاوہ ازیں وظائف او ر تصوف کی متعدد کتابیں شائع کیں ۔ اس سلسلے میں آپ کا عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ عشرئہ کامہ کے علاوہ دو حخٰم جلدوں میں درود شریف کا ایک مجموعہ بنام خزائن البرکات مرتب کر کے نہا یت خوشخط لکھوایا مگر اس کی اشاعت کا موقع سے قبل آپ کا وصال ہو گیا آپ نے اس کتاب کے عربی دیبا چے میں لکھا ہے :
’’کسی کا کائی شغل ہے اور کسی کا کوئی مگر میرا ہر وقت کا شغل تصر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے ۔‘‘
؎ بود در جہاں ہر کسے راخیالے
مرا از ہمہ خوش خیال محمد
حضرت پیر صاحب کی مرتبہ تمام کتب پر یہ لکھا ہوتا تھا ’’ عبد الغفار حامئی اشاعت درود شریف ‘‘
خدمت درود شریف کے علاوہ آپ کی ایک دینی خدمت یہ ہے کہ مسجد حنفیہ تکیہ سادھواں میں ۱۳۲۹ھ/۱۹۰۰ء میں آپ نے ایک دینی مدرسہ بنام مدرسہ غوثیہ قائم کیا جس میں علوم دینیہ کی تعلیم کا نہایت اعلیٰ انتظام تھا ۔اجلہ فضلاء مدرسین کی خدمات حاسل کی گئی تھیں ۔ا یک مدت تک اس مدرسہ میں مفتی عبد القادر جہانگیر وی صدر مدرس رہے اور مولانا سید احمد علی شاہ بٹالوی مرحوم اعزازی طور پر ہر ہفتہ بعد تر مذی شریف پڑھایا کرتے تھے ۔یہاں کے طلباء کو مثنوی مولانا روم بھی پڑھائی جاتی تھی اور اس کا درس پیر صاحب خود دیا کرتے تھے۔
پیر صاحب قبلہ کے عقیدت مندوں کا حلقہ نہایت وسیع تھا ۔آپ کے اراد تمند پنجاب اور کشمیر سے باہر افغانستان میں بھی تھے مگر آپ نے باقاعدہ بیعت خاس حضرات ہی کو کیا ۔ مولانا غلام قادر امر تسری ااپ کے مرید خاس تھے ۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے لاہور میں میرے پیر کے قریب دفن کیا جائے چنانچہ آپ کو لاہور مین لاکر دفن کیا گیا۔
حضرت پیر صاحب کے وصال کا واقعہ یوں ہے کہ آپ نماز عشاء کے لئے اپنی مسجد میں وضو کر رہے تھے ، ابھی بایاں پائوں دھونا باقی تھا کہ یکا یک آپ کو اختلاج قلب کا عارضہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹر محمد دین ناظر جو آپ کے قریب ہی رہتے تھے، کو اطلاع دی گئی ، وہ آئے اور دوا پلانے کی بہت کوشش کی مگر آپ نے نہ پی اور پونے دو گھنٹے میں واصل بحق ہو گئے ، یہ وقعہ ۱۷ جمادی الا خریٰ بروز چہارشنبہ(۱۳۴۰ھ/۱۹۱۱ء) کا ہے ۔
فقیہ اعظم حضرت مولانا محمد شریف کوٹلی لوہاراں نے آپ کی تاریخ وفات کہی ؎
سیدی والا گہر غفار شاہ
چوں بوصل ذات ھق مسرور رشد
بہر سال رحلتش گفتار شریف
’’قبلہ و کعبۂ من مستور شد‘‘
آپ کا مزار میانی صاحب (لاہور) کے قبرستان میں باغ گل بیگم کے نزدیک واقع ہے[2]
[1] نقوش لاہور نمبر (فروری ۱۹۶۲ئ) ص ۴۱۸
[2] محمد موسیٰ امر تسری ، حکیم اہلسنت : قلمی یادادشت
ضیاء محمد ضیا خلیفہ: گلزار رحمانی (مطبوعہ ۱۹۷۶ء)
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)