امام المجاھدین حضرت مولانا عبد الغفور صاحب سوات قدس سرہ
امام المجاھدین حضرت مولانا عبد الغفور صاحب سوات قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
امام المجاہدین شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا اخوند عبد الغفور صاحب سوات قادری رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۱۸۴ھ/۱۷۷۰ء میں پیدا ہوئے۔آپ کو ابتداء ہی سے دینی تعلیم کا اشتیاق تھا چنانچہ ابتدائی کتب اپنے علاقہ کے علماء سے پتھیں ، بعد ازاں پشاور کے مشہور زمانہ فاضل حضرت مولانا حافظ محمد عظیم پشاری رحمہ اللہ تعالیی ( م ۱۲۷۵ھ/۱۸۵۸ئ)کی خدمت میں حاضر ہو کر تقریباً چار برس میں تمام کتب متداولہ کی تحصیل و تکمیل کی ار سند فراغت حاصل کی ، با کمال استاد کی صحبت سے تزکیۂ نفس کا جذبہ پیدا ہوا اور شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد شیعب قدس سرہ ساکن توڈھیری کے دست اقدس پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے ، ایک عرسہ تک دریائے کاہل اور دریائے سوات کے جنگلوں میں محو عبادت و ریاضت رہے او سلاسل اربعہ میں ماذون و مجاز ہوئے۔
اب آپ نے عوام الناس کو رشد و ہدایت کا درس دینا شروع کیا اور جگہ جگہ تشریف لے جا کر اتباع شرعیت و سنت کی تلقین کرنے لگے ، بیوہ عورتوں کا نکاح ثانی کراتے شریعت مطہرہ کے مطابق فیصلے کرتے ، غیر شرعی رسوم کا سختی سے سد باب کرتے ،گویا آپ کی ذات سے ایک دبستان شریعت قائم تھا جس نے معاشرے م یں زبردست انقلاب برپا کردیا ۔آپ کے لنگر سے ہزاروں ضرورت مند مستفید ہوتے جو خدمت دین کے جذبہ سے سر شار ہو جاتے۔
جب سید احمد بریلوی اور مولوی اسمٰعیل دہلوی نے اپنی جماعت کے داتھ پشاور کا رخ کیا تو حضرت اخوند وصاحب نے سکھوں کو پشاور سے نکالنے اور مسلمانوں کو ان کے جبرو استبداد سے نجات دلانے کے لئے کاہائے نمایاں انجام دئے، پشاور فتح ہونے کے بعد مذکورہ جماعت نے اپنے عقائد و اعمال کو عملی طور پر نافذ کرنا شروع کیا، جہاں تک غیر شرعی رسوم اور منکرات کے انسداد کا تعلق تھا وہاں تک حضرت اخوند پیش پیش رہے کیونکہ یہ تو آپ کا مشن تھا جسے آپ پہلے سے جاریکئے ہوئے تھے لیکن جب عقائد کا معاملہ آیا تو نہ صرف آپ کو مذکورہ جماعت سے الگ ہو گئے بلکہ ان کے ایسے عقائد کی بھی کھلم کھلا مخالفت کی جو مسلک اہل سنت کے خلاف[1]تھے اور آپ کے ایماء پر ااپ کے خلفاء افاضل نے ان کے عقائد کے رد میں مستقل کتابیں لکھیں ، ان میں مولانا مرید محی الدین نو شہروی اور پشور کے نادر روزگا فاضل مولانا میاں نسیر احمد المعروف بہ میاں صاحب قصہ خوانی قدس سرہما کے اسماء خاص طور پر قبل ذکر ہیں ۔
یہاں یہ با قابل ذکر ہے کہ خان خادی خاں شہید حضرت مولانا کوند عبد الغفور قدس سرہ کے مخلص مرید تھے لہٰذا ان کی مذکورہ جماعت سے مخالفت ایک فطری امر تھا اس لئے ان پر غداری کا الزام لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے
ولیکن قلم در کف دشمن
حالات دن بدن ناگفتہ بہ صورت اختیار کرتے گئے اس لئے آپ نے تبلیغی کوششوں کا مرکزسوات کو بنا لیا ، ادھر انگریزوں نے اپنی شیطانی چالوں سے پشاور پر قبضہ کرلیا،حضرت مولانا اخوند عبد الغفور رحمہ اللہ تعالیٰ کی دور بیں نگاہوں نے محسوس کر لیا کہ اگر سوات میں کوئی تنظیم نہ ہوئی ، کسی کو امیر نہ بنایا گیا تو فنگی یلغار کا مقبلہ کسی طرح بھی نہ ہو سکے گاچنانچہ آپ کی شبانہ روز محنت کا اثریہ ہوا کہ لوگوں نے حضرت غوث خراسان سید علی ترمزی قدس سرہ کی اولاد میں سے سید اکبر شاہ ( م ۱۱ مئی ۱۸۵۷ء) کو اپنا امیر تسلیم کرلیا ، آپ نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی ، حضرت اخوند کو شیخ الاسلام تسلیم کرلیا گیا اور تمام مقدمات کے فیصلے شریعت اسلامیہ کے مطابق ہونے لگے۔
سید اکبر شاہ کی وفات کے بعد ایک بار پھر سوات اور بنیر کانہ جنگی کی زدمیں آگئے ، انگریز نے اس اختلاف و انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوات کا رخ کیا، حضرت شیخ الاسلام اخوندنے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور مریدین و متعلقین میں شوق شہادت کی روح پھونک دی ، مجاہدین سر بکف میدان میںنکل آئے اور نہایت بے جگری سے انگریزی افواج کا مقابلہ کیا ۔ معامہ دست بدست لڑائی تک پہنچا اور فرنگیوں کو پسپا ہونا پڑا، یہ معر کہ جہاد امبیلہ کے نام سے مشہور ہے۔
کچھ دنعں بعد حضرت شیخ الاسلام نے مجاہدین کو ساتھ لے کر کڑا کڑ کے مور چے کی طرف متوجہ ہوئے اور ہولناک جنگ کے بعد اس مور چے کے بھی فتح کر لیا ، چونکہ یہاں سحت جنگ لڑی گئی تھی اس لئے اس جگہ نام ہی قتل گڑھ پڑگیا ، تھوڑے ہی دنوں بعد انگریزوں کی بھاریجوف نے ایک نہایت تجربہ کار انگریز کمانڈر کی کمان میں پھر حملہ کردیا ، ادھر حضرت اخون صاحب نے مجاہدین کی صفوں کو ترتیب دے کر مقابلہ کیا مگر یہ جنگ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی ،مجاہدین میں افر اتفری پیدا ہوئی اور باجوڑ وغیرہ کے لوگ واپس ہونے لگے ۔ حضرت اخون صاحب نے ایک مقام پر کھڑے ہو کر ولولہ انگیز تقریرکی اور فرمایا: آج زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، اسلام کی عزت اور بے عزتی کا مسئلہ ہے ،جو نمردی اور ہمت سے مقابلہ کرو، آپ کی تقریرکا خطرہ خواہ اثر ہو ا اور پسپا ہونے والے ایک مرتبہ پھر انگیرزی فوج پر ٹوٹ پڑے مگر انگریزوں کے چند زر خرید خوانین کی غداری کی وجہ سے کامیابی حاسل نہ ہوئی اور مجاہدین کو منتشر ہو نا پڑا۔
حضرت اخون صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سید و تشریف لے گئے اور تبلیغ دین میں مصروف ہو گئے ۔ آپ کے مریدین لاکھوں کی تعداد میں صوبۂ سرحد ، علاقہ آزاد اور کابل وغیرہ علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے ، آج بھی صوبہ سرحد میں جو دینی جذبہ اور اسلام سے محبت پائی جاتی ہے ، آپ ہی تبلیغی سر گرمیوں کا نتیجہ ہے ۔آپ کے خلفاء کی تعداد تقریباً ساڑھے چار سو بتائی جاتی ہے ، آپ ایسے صاحب کرامات و خوار ق بزرگ تھے کہ اپنی تمام زندگی اشاعت دین اور اعلاء کلمۃ الحق میں صرف کردی۔
آخر دہد آفریں اور تاریخ ساز مجاہد اور عالم و عارف ۷ محرم الحرام ، ۱۲ جنوری (۱۲۹۵ھ/۱۸۷۷ء) بروز اپنے محبوب حقیقی سے جاملا ، آپ کا مزار پر انوار سید و شریف میں مرجع انام ہے [2]
[1] خان روشن: حواشی تواریخ حافظ رحمت خانی مطبوعہ پشتو اکیڈمی ، پشاور یونیورسٹی ، پشار ، اشاعت دوم ۱۹۷۶ء ص ۵۳۲۔
[2] محمد امیر شاہمولانا سید : تذکرہ علماء و مشائخ سرحد ( عظیم پیلٹنگ ہائوس خیر بازار پشاور ، ۱۹۲۴ئ) ج ، ص ۱۴۰۔ ۱۵۷۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)