فاضل جلیل مولانا محمد عبد الکریم ابن مولانا فضل احمد ابن مولانا حافظ خان محمد رحمہم اللہ تعالیٰ بمقام بستی قلعدار ضلع گجرات مین پیدا ہوئے ، آ قریشی خاندان کے چش م و چراغ تھے۔ آپ کے اکابر ااعن جد علم و فضل اور خدمت دین م یں بلند مقام رکھتے تھ ے ۔مولانا نے اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دور کے اجلہ فضلاء سے اکتساب فیض کیا جن میں سے مولانا کیلم اللہ مچیانوی، مولانا محمد عد اللہ ٹونکی ( محشی حمد اللہ شرح سلم ) مولانا عبد الحکیم کلا نوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ آپ نے السنٔہ شرقیہ کے امتحانات امتیازی پوزیشن میں پاس کئے سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ پیر سید حیدر شا جلالپوری قدس رہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔
تحصیل علوم سے فراغت کے بعد ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۶ء میں مشن ہائی سکوم جلالپور جٹاں میںعربی مدرس مقر ہوئے ، بعد ازں گونمنٹ ہائی سکول پنڈ دادنخاں (ضلع جہلم) میں رہے اور ۱۹۳۱ء میں پنشن پر آگئے ۔ انگریزی دور میں اگر چہ انگریزی سکولوں مین السنٔہ شرقیہ کے اساتذہ کو نگاہ حقارت سے دیکھا جاتا تھا لیکنمولانا جہاں رہے عزت و وقار سے رہے اور تعیسی ذمہ داریوں کے نبھانے کے ساتھ ساتھ خطابت اور افتاء کیفرائض بھی انجام دیتے رہے ، سرکاری ملاز مت سے فارغ ہونیکے بعد اپنے والد ماجد کیطرح مسجد میں فی سبیل اللہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیااور تازیست اس سغل کو جاری رکھا۔
مولانا بہتیرن خطاط ، قادر الکلام شاعر اور صاحب تصنیف محقق تھے ۔آپ کی متعدد تصانیف اور خوشخط مخطوطات کا ذخیرہ آپ کے علم دوست فرزند پروفیسر قریشی احمد حسین قلعداری (گجرات ) کے پاس محفوظ ہے ، تصانیف درج ذیل ہیں:۔
۱۔ دیوان الکریم (عربی)
۲۔ دیوان الکریم (فارسی)
۳۔ تفسیر سورئہ فاتحہ (عربی)
۴۔ فحوی البینات فی مسائل الاموات
۵۔ تاج المؤ منین
۶۔ خیر البخر فی مسائل سنت الفجر ۔
۷۔ القول العاضد فی حکم ایقاع الطلقات الثلاث فی المجلس الواحد
۸۔ روح العباد فی ذکر المیلاد
۹۔ اور تاریخ صلح حدیبیہ و فتح مکہ وغیرہ وغیرہ
روح العباد کے علاوہ باقی تصانیف تاہنوز غیر مطبوعہ ہیں ۔
۲۴،صفر ، ۱۹ ستمبر ( ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ئ) بروز جمعرات شام کے وقت داعئی اجل کو لبیک کہی ، آپ کے وصال سے قلعداری علماء کی بزم کا ایک عظیم نمائندہ رخصت ہو گیا اور محراب و منبر کی رونق اپنے ساتھ لے گیا[1]۔
مولانا محمد فاضل ساکن جھبوانوالی نے قطعۂ تاریخ وفات لکھا ؎
جیف حضرت مولوی عبد الکریم
کردر حلت جان دار النعیم
جستجو کر دم کہ ہاتف گفت یار
’’فخر ملت زاہدے‘‘ شالش شمار[2]
[1] احمد حسین قریشی قلعداری یاد سلف ، ص ۱۱ ، ۱۲
[2] ایضاً : ص ۴۶
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)