مولانا عبدالمجید ساند
مولانا عبدالمجید ساند (تذکرہ / سوانح)
مولانا حاجی عبدالمجید بن ولی محمد ساند ۱۳۳۸ھ؍ ۱۹۱۹ء کو تھر پار کر کے گوٹھ واگھی جی دیرہ ( تحصیل نگر پار کر ) میں تولد ہوئے ۔ ایک سال کی عمر کو پہنچے تو شفیق والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ پرورش والدہ ماجدہ اور چچا وغیرہ کے زیر سایہ ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
تعلیم قرآن مجید کیلئے والدہ نے اپنے ہی گوٹھ میں مائی مراد خاتون کے پاس بٹھایا۔ وہیں پر قرآن مجید ناظرہ مکمل کیا اور کتاب ابو الحسن سندھی پڑھی ۔ گوٹھ بھ شریف ( ضلع تھر پار کر ) میں میاں حامد اللہ ساند نقشبندی کے صاحبزادہ مولانا انور علی کے پاس فارسی مثلا گلستان ، بوستان ، یوسف زلیخا اور عربی میں نحو میر تک کتب پڑھیں ان دنوں مولانا انور علی ساند کی طبیعت نا ساز ہو گئی اور جلد ہی انتقال کیا۔ نوجوان عالم دین بیٹے کے اچانک انتقال پر مولانا حامد اللہ کو شدید صدمہ پہنچا لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا ۔ مولانا انور علی نے انتقال سے قبل اپنے والد ماجد کو وصیت کی تھی کہ عبدالمجید جیسے سعادت مند شاگرد کووہ خود بھی پڑھائیں ۔ اس کے بعد عبدالمجید نے مولانا حامد اللہ اور مولانا محمد عالم جو نیجو کے پاس ہدایۃ النحو، شرح جامی ، کافیہ ، کتابیں پرہیں ۔ آپ کے چچا محمد قبول ساند نے آپ کو گجرات ریاست ( انڈیا) قصبات راند یل اور ڈابھیل کے مدارس میں داخل کروایا وہاں بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد نبی سر ( ضلع عمر کوٹ )میں مولانا محمد خان در س ؒ کے یہاں تعلیم حاصل کی اس کے علاوہ ڈیپلو ( ضلع تھر پارکر) میں مولوی محمد عمر کے مدرسہ پہنچے لیکن وہاں جاکر معلوم ہونے پر کہ وہ مولوی عبدالرحیم پچھی غیر مقلد کے زیر اثر غیر مقلد بن چکے ہیں وہاں سے بدین چلے گئے جہاں پر مولانا غلام علی گو پانگ نقشبندی اور آپ کے صاحبزادے مولانا محمد سعید گو پانگ کے پاس بقیہ کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے یہیں پر آپ کی دستار فضیلت ہوئی اس وقت آپ کی عمر فقط ( ۱۷) سال تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
حکمت :
بعد فراغت ، طب پڑھنے کا شوق دامن گیر ہوا اس لئے اجمیر شریف ( انڈیا ) پہنچے جہاں پر حکم عبدالمجید صاحب کے پاس دو سال کا کورس چھ ماہ میں مکمل کر کے سند حاصل کرکے واپس ہوئے۔ حکیم عبدالمجید ، نامور حکیم اجمل خان دھلوی کے شاگرد تھے۔
ایک بار بھ شریف میں حکیم حاجی محمد صدیق حجام ڈینبھو والے کا آنا ہوا، میاں حامد اللہ نے ان سے کہا مولوی عبدالمجید حکمت پڑھ کر آیا ہے ذرا ان کا امتحان تو لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔حاجی صاحب نے آپ سے آنکھ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے آنکھ ، اس کے پردے ، بیماریاں اور اس کے علاج پر ایک گھنٹہ تفصیلی لیکچر دیا۔ یہ سن کر حاجی صاحب نے میاں صاحب سے کہا :’’مولوی صاحب ( دینی مصروفیات کی بنا پر ) حکمت کرے گا تو نہیں لیکن اگر کی تو لاثانی حکیم بنے گا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ حکیم صاحب کی بات بالکل صحیح ثابت ہوئی کہ آپ نے حکمت کو پیشہ نہیں بنایا۔
مدرسہ و مسجد کا قیام :
خواجہ محمد حسن جان سر ہندی علیہ الرحمہ کے ایماء پر گوٹھ واگھی جو دیرہ میں ’’مدرسہ صوفیہ حنیفیہ ‘‘ قائم کیا اور اس کے متصل ایک خوبصورت مسجد شریف تعمیر کروائی ۔ جس کی تعمیر کیلئے لاہور ( پنجاب ) سے مستری کو بلوایا تھا جو کہ مولوی بھی تھا وہ صاحب اس دور میں تعمیر کے حوالہ سے مشہور تھے۔ آپ نے خود ہی قطعہ تاریخ مسجد قلمبند کیا:
بنائے مسجد گنبد مکرم
بفضل اللہ کہ شد کارش متمم
بگتفتا خیر تاریخش ملک غیب
کہ ایں مسجد زہے عالی معظم
۱۹۶۱ئ کو آپ نے گوٹھ کندی میں زمین خریدی تو وہاں بھی مسجد شریف تعمیر کروائی جس کی تکمیل س۱۳۹۰ھ؍۱۹۷۰ میں ہوئی۔ پیر ابراہیم جان سر ہندی نے جب وہاں مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ نے اپنی جگہ مدرسہ کے نام وقف کر دی۔
درس تدریس :
مدرسہ صوفیہ حنفیہ میں بے شمار طلباء متحدہ ہندوستان کے پڑھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد راجستھان کے قصبات سے رابطہ منقطع ہوا اور طلباء واپس چلے گئے۔ اس مدرسہ میں آپ نے دیگر علماء کو مدرس مقرر کیا تھا۔ حافظ عبدالطیف چنہ حفظ و ناظرہ ، مولانا حبیب اللہ دل، مولانا عبدالحق بریلی مبتدی طلباء کو اور منتہی طلباء کو خود پڑھاتے تھے۔
تلامذہ:
آپ کے بعض تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں ان میں اکثر کا ضلع تھر پار کر تعلق ہے:
۱۔ مولانا محمد چنہ
۲۔ مولانا محمد عالم ساند
۳۔ مولانا علی محمد ساند
۴۔ مولانا غلام علی ساند
۵۔ مولانا عبدالرشید
۶۔ مولانا عبدالحق ڈینبھائی شیخ الحدیث لونی شریف
۷۔ مولانا دین محمد ساند
۸۔ مولانا عبدالواحد گجو
۹۔ مولانا محمد عاقل ساند
۱۰۔ مولانا محمد امین درس
۱۱۔ مولانا تاج محمد
آپ کے انتقال کے بعد ۱۹۸۰ئ کے دہائی میں مولانا عبدالحق انڈیا سے پاکستان استاد محترم کی تعزیت کے سلسلہ میں تشریف لائے تھے مزار شریف پر فاتحہ خوانی کی لیکن چند یو م کے قیام کے بعد اچانک ان کا انتقال ہو گیا ۔ مولانا صاحب نہایت ادیب تھے۔۔۔۔۔۔۔مولانا پروفیسر عبدالباقی صاحب (کا چھیلو فارم p.o ، تحصیل جیمس آباد ضلع میر پور خاص ) آپ ہی کے صاحبزادے ہیں ۔
تعلقات :
متحدہ ہندوستان کے دور میں آپ اپنے فاضل طلباء کو مزید اعلیٰ تعلیم کیلئے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی قدس سرہ کے مدرسہ منظر اسلام بریلی شریف بجھواتے تھے مثلا : مولانا عبدالحق بریلوی ، مولانا عبدالواحد گجو، مولانا دین محمد ساند وغیرہ ۔
قیام پاکستان کے بعد شیخ الحدیث حضرت علامہ ابو الفضل سر دار احمد رضوی قدس سرہ کے مدرسہ دارالعلوم مظہر اسلام فیصل آباد کو دورہ حدیث شریف کیلئے طلباء کو بھجواتے تھے۔ مثلا : مولانا محمد عالم ساند، مولانا علی محمد ساند ، مولانا محمد عاقل ساند وغیرہ ۔
آپ کو محدث لائلپوری سے محبت تھی اور وہ بھی آپ کو احترا م کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ اپنے طلباء کی خیریت معلوم کرنے فیصل آباد بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ محدث لائلپوری آخری دور علالت میں جب کراچی میں ہاسپیٹل میں داخل تھے آپ کو جب پتہ چلا تو آپ عیادت کیلئے تھر سے کراچی تشریف لائے ۔ آپ کو دیکھ کر محدث صاحب نے فرمایا: آپ جیسے عالم کو دیکھتا ہوں تو ٹھیک ہو جاتا ہوں اور جب ڈاکٹروں کو دیکھتا ہوں تو بیمار ہو جاتا ہوں ‘‘۔
لائبریری :
آپ نے عظیم الشان کتب خانہ قائم فرمایا تھا جس میں نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ تھا۔ آپ نے دوران سفر بھی کافی تعداد میں کتب لاتے تھے لیکن ۱۹۷۱ئ کی پاک بھارت لڑائی میں بھارتی افواج نے آپ کے کتب خانہ کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا۔ خطوط کا ذخیرہ ، اسناد علمی وغیرہ تباہ ہو گئے۔
تصنیف و تالیف :
آپ قلمکار تھے ، شاعر تھے شاعری کے بیاض کے علاوہ کئی تصانیفات کتب خانہ میں ضائع ہو گئیں ۔ مکتوبات شریف۔ ( خواجہ محمد حسن سر ہندی کے خطوط کر جمع کیا تھا وہ بھی ضائع حقیقت محمد ی ﷺ ( شیخ عبدالرحیم گرہوڑی قدس سرہ ) کی شرح وہ بھی ضائع
اعلاء الحق المعروف بہ مناظرہ ڈونجھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۳۶۳ھ؍ ۱۹۴۳ء کو گوٹھ ڈونجھ تحصیل ڈیپلو ضلع تھر پار کر سند ھ میں اہل سنت و جماعت اور اہل حدیث غیر مقلد ین کے مابین مناظرہ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل سنت کی جانب سے مناظرہ حضرت مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی علیہ الرحمہ ( ماتلی ) تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے مناظرہ میں جو مدلل تقریر فرمائی اس کو پوری روئداد کے ساتھ مولانا عبدالمجید صاحب نے قلم بند کیا اور کراچی سے لیتھو پریس سے چھپوا کر سندھ میں تقسیم کیا۔ مناظرہ کی تفصیلات جاننے کیلئے پیر صاحب کے حالات دیکھئے : اسی کتاب کے ردیف ’’ع ‘‘ میں ۔
سفر حرمین شریفین :
قیام پاکستان سے قبل دو حج بیت اللہ کئے اور قیام پاکستان کے بعد ۴ بار اس طرح آپ نے ٹوٹل ۶ حج بیت اللہ اور اسی تعداد میں مدینہ منورہ میں روضہ رسول پاک ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی ۔ اپنی والدہ دو بیویاں اور بیٹی کو بھی حج کرایا۔
مزارات مقدسہ :
متحدہ ہندوستان کے دور میں آپ نے مزارات مقدسہ کی حاضری اور فیوض و برکات کے حصول کے سلسلہ میں اکثر شہروں کا دورہ کیا۔ مثلا : اجمیر شریف، سر ہند شریف ، بریلی شریف ، دہلی بمبئی وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔اجمیر ، سر ہند اور گوہوڑ شریف ( سندھ ) تینوں درباروں پر حصول فیض کیلئے چلہ کا ٹا۔ دہلی سے خاصی تعداد میں کتابیں بھی خریدیں تھیں ۔
سیاست :
سیاست شرعیہ کے حامی تھے، وہ چاہتے تھے کہ اہل سنت و جماعت سیاست میں بھر پور حصہ لیں کیونکہ یہ ملک ہم نے بنایاہے لہذا اس کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داری بغیر سیاست کے نہیں پوری ہو گی بلکہ اپنے جائز کام بھی نہیں ہو پاتے ۔ وہ علماء کو سیاسی میدان میں لانے میں کوشش کرتے رہتے بلکہ الیکشن میں ان کے فارم بھی جمع کرائے اور فیس بھی خود اد ا کرتے تھے۔
شاعری :
آپ کو شاعری میں دلچپسی تھی بلکہ فارسی اور سندھی کے بہترین شاعر تھے اور تخلص ’’باقی اور خیر ‘ ‘ تھے۔ آپ کی شاعری کتب خانہ میں ضائع ہو گئی۔ آپ کی شاعری میں سے ایک جھلک یہاں پیش کرتے ہیں :
غزل کہ دروقت رویت حبیب کریم ﷺ عرض کردہ بودم فی مدینۃالمنورہ ۶ ذوالقعہ ۱۳۷۸ھ ؍ ۱۹۵۹ء
درد فراق بس شدید
انتظاری شد مدید
ناگھاں آمد پدید
روئے از روزن کشید
گفت بالطف مزید
مرحبا یا عبد المجید
گفتم بے ویرانہ ام
سوبسو حیرانہ ام
دربدر مستانہ ام
بایہ وصال خوش سعید
گفت بالطف مزید
مرحبا یا عبد المجید
گفتم چہ عالم شد خراب
جانا و جگر جملہ کباب
روئے را ازمن متاب
تابد بینم ابرو خمید
گفت بالطف مزید
مرحبا یا عبد المجید
آمد گدائے کوئے تو
گشتہ فدائے موئے تو
عاشق شدہ بہ روئے تو
بے چارہ عبد المجید
گفت بالطف مزید
مرحبا یا عبد المجید
ایک بار موجودہ پیر صاحب پاگارہ سید شاہ مرداں شاہ راشدی تھر پا کر مریدیں کی دعوت پر تشریف لائے تھے تو آپ نے انہیں اپنے مدرسہ صوفیہ حنفیہ میں مدعو کیا۔ آپ نے پیر صاحب کی شان میں سندھی می منقبت لکھی تھی جو کہ کپڑے کے بینر پر لکھوا کر اس وقت آویزاں کی گئی تھی ۔ جس کی ابتدا اس عبارت سے ہوتی ہے:
’’قلت عند قدوم میمنت لزوم حضرت پیر صاحب پاگارہ دامت بر کاتھم عالیہ فی صوفیہ حنفیہ فی تاریخ ۱۰رجب المرجب ۱۳۷۵ھ؍ ۱۹۵۶ئ‘‘۔
اعراس بزرگان دین :
قیام پاکستان سے قبل آپ سلطان الہند عطائے رسول حضرت خواجہ سید معین الدین حسن چشتی قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ الاقدس کے دربار مقدس اجمیر شریف سالانہ عرس مبارک پر ۶ رجب المرجب کو حاضری دیتے تھے۔ خواجہ صاحب کی آپ پر خصوصی نظر عنایت تھی۔
۱۔ مدرسہ صوفیہ حنفیہ میں سالانہ ۶ رجب پر خواجہ صاحب کی چھٹی شریف ۔
۲۔ ماہانہ غوث الاعظم پیران پیر دستگیر شہنشاہ بغداد قدس اللہ تعالیٰ سرہ ٗ الاقدس کی گیارہویں شریف ۔
۳۔ ۲۸ صفر المظفر پر سالانہ حضرت مجدد الف ثانی سر ہندی قدس اللہ تعالیٰ سرہ الاقدس کا سالانہ عرس مبارک نہایت عقیدت و محبت سے منعقد کرتے تھے اور حصول فیوض کا ذریعہ بتاتے تھے۔
جشن عید میلاد النبی ﷺ سالانہ ۱۲ ربیع الاول شریف کو دھوم دھا م سے انعقاد کرتے تھے۔
عادات و خصائل :
مالی طور پر مضبوط خاندانی رئیس تھے لیکن طبیعت میں سادگی پسند تھے۔ سخی ایسے تھے کہ سائل کو خالی نہیں بھیجتے تھے ، مدارس و مساجد اہل سنت کی اعانت ، غرباء کی امداد ، طلباء کو نوازنہ آپ کی عادت تھی۔ دینی ، سیاسی لوگ حاجت مند ، سائل ، مہمان سب کیلئے لنگر جاری رہتا۔ حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کے عاشق زار تھے، اولیاء اللہ سے خصوصی طور پر عقیدت رکھتے تھے اور حصول فیض کیلئے ان کی حاضری بھی دیتے تھے۔ رات کو تین بجے اٹھا جاتے تہجد ذکر مراقبہ میں مشغول ہو جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔نماز فجر مسجد شریف میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے اس کے بعد اور ادوظائف میں مشغول رہتے ۳۰:۰۹ یا دس بجے اشراق کے نوافل ادا کر کے مسجد شریف سے باہر نکلتے تھے ۔ یہ روز کا معمول تھا۔ اس کے بعد متصل اوطاق ( بیٹھک ) میں آتے جہاں پر ہر طبقہ کے لوگ آپ کے منتظر ہوتے ان سے ملتے ان کے مسائل حل کرتے ، ان کو کھا نا کھلانے کے سوا واپس جانے نہیں دیتے ۔ اخلاق و اخلاص محبت و مروت کے اوصاف سے مزین تھے۔
بیعت و خلافت :
بعد فراغت علمیہ کے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت میاں عبدالرحیم درگاہ ملا کا تیار سے دست بیعت ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی فاروقی قدس سرہ کے دست بیعت ہو کر سلوک کی منازل طے کیں ۔ ان کے علاوہ بھی بہت بزرگوں سے صحبت حاصل کی اور فیض یاب ہوئے ۔۔۔۔۔۱۹۷۸ئمیں آپ نے خود ان بزرگان دین کی فہرست تیار کی تھی جن سے فیض اجازت و خلافت حاصل کی:
۱۔ حضرت میاں حامد اللہ نقشبندی ساند بھ شریف ۔
۲۔ حضر ت علامہ غلام علی نقشبندی گو پانگ بدین ۔
۳۔ حضرت میاں عبدالرحیم درگاہ ملا کا تیار حیدرآباد۔
۴۔ حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ٹنڈو سائینداد۔
۵۔ حضرت مولانا عبدالعزیز حیدرآباد دکن ۔
۶۔ حضرت خواجہ محمد عمر جان نقشبندی درگاہ چشمہ شریف کوئٹہ ۔
۷۔ مولانا عبدالمجید دہلوی بن مولانا مسعود احمد مفتی جامع مسجد فتح پور دہلی ( انڈیا)
۸۔ حضرت مولانا محمد امین چشتی مزرنگ بھونڈ پور ( لاہور ) ۔
۹۔ حضرت پیر فیض محمد قند ہاری نقشبندی تاند لیا نوالہ ( فیصل آباد )۔
۱۰۔ حضرت مولانا حبیب اللہ محلہ گیان پور گجرات ( انڈیا)۔
۱۱۔ حضرت خواجہ عبدالودو د نقشبندی شکار پوری بازار قند ھار افغانستان ۔
۱۲۔ حضرت مجذوب عباس علی پتو کی ( پنجاب)
وصال :
حضرت علامہ المجید نقشبندی مجددی ۱۹۷۸ء کے آخر میں فالج کا اٹیک ہوا۔ ۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۹ھ بمطابق ۱۲اپریل ۱۹۷۹ء بروز جمعرات ۶۱ سال عمر میں راجپوتا نہ ہسپتال حیدرآباد سندھ میں انتقال کیا۔ جمعۃ المبارک کے روز گوٹھ واگھی جودیرہ میں آپ کے استاد محترم حضرت مولانا محمد عالم جو نیجو علیہ الرحمہ کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا ہوئی۔ قبرستان میں تدفین ہوئی۔ حضرت پیر ابراہیم خلیل سر ھندی علیہ الرحمہ ( گلزار خلیل سامارو) نے سندھی میں قطعہ تاریخ وصال کہا:
یاد حق کان کونہ غافل تی رہیو کاہک گھری
عمر پن ’’یاد الاہیی‘‘ جیی اکرمان تی عیان
سال میلاد ان جو ابراہیم لک ’’حمد غفور‘‘
سال رحلت آیی ’’آغوش محمد‘‘ ۱۳۹۹ھ بیگمان
’’جناب مولانا نور نبی صاحب نعیمی ( شاہ پور چاکر ) تھر پاکر کے دورے کے دوران گوٹھ واگھی جو دیرو گئے تو وہاں پر مولانا مرحوم کے کسی صحبت یافتہ سے مرحوم کے حالات زندگی تفصیلی لکھوا کر لائے جس پر مصوف کا نام درج نہیں اور فقیر نے ترجمہ کے ساتھ مضمون ترتیب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ فقیردونوں حضرات کا مشکور ہے‘‘۔
مسئلہ ۱۱۰۶؛ از دمن قریب سورت بخدمت جناب مولانا مولوی محمد وصی احمد صاحب محدث سورتی () و از انجا بفرض تحقیق نزد فقیر ۱۶؍ربیع الاوّل شریف ۱۳۱۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ دعائے قنوت کا کس مصیبت کے نازل ہونے کے وقت فرائض پنجگانہ میں پڑھنا یا خاص کسی وقت کے فرض نماز میں پڑھنا شرع شریف سے ثابت ہے یا نہیں؟ خاص کر ایام و بائے طاعون میں اور اُس کے پڑھنے کا محل فرض کی آخری رکعت میں قبل رکوع کے یا قومہ میں امام اور مقتدی دونوں پڑھیں یا صرف امام بآوازِ بلند پڑھے اور مقتدی آمین آہستہ آہستہ کہیں بینوا توجروا۔
الجواب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم o اللھم لک الحمد (اے اللہ! تیرے لیے حمد ہے۔ت) عامہ بلکہ عام متون مذہب میں دربارہ وتر ارشاد ہوا:
لا یقنت فی غیرہ وکذا صرحوا ان الماموم لا یتبع امامہ القانت فی الفجر وعللوہ بانہ منسوخ وانہ محدث.[1] |
|
غیر و تر میں قنوت نہ پڑھے جیسا کہ فقہاء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ مقتدی اس امام کی جو فجر میں قنوت پڑھتا ہے پیروی اس معاملہ میں نہ کریں، اور انھوں نے وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ منسوخ ہے لہٰذا یہ نئی چیز ہے۔ (ت) |
اور محققین شراح مثل امام ابن الہمام و علامہ سروجی و امام عینی شارحین ہدایہ و علامہ شمنی شارح نقایہ و علامہ ابراہیم حلبی شارح منیہ و علامہ زین بن نجیم شارح کنز و علامہ شرنبلالی شارح نور الایضاح و علامہ علائی شارح تنویر و علامہ سیّد حموی شارح اشباہ و علامہ نوح آفندی و علّامہ سیّد ابوالسعود ازہری محشی کنز و علامہ سیّد محمد شامی محشیان در وغیرہ بہ تبعیت امام اجل حافظ الحدیث ابو جعفر طحاوی ہنگام نزول نوازل مثل طاعون وغیرہ (والعیاذ باللہ تعالیٰ) صرف نمازِ فجر میں تجویز قنوت کی تنقیح و تنقید اور اطلاق متون کی اس سے تقیید فرماتے ہیں غنیہ المستملی ومراقی الفلاح وغیرہما میں ہے:
[1]۔ در مختار، باب الوتر والنوافل، مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۴۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )