مولانا عبدالرشید بہاری
مولانا عبدالرشید بہاری (تذکرہ / سوانح)
عمدۃ المدرسین مولانا عبدالرشید رضوی بہاری
مدرس شمس العلوم گھوسی ضلع مئو
ولادت
حضرت مولانا عبدالشید رضوی بن حکیم محمد نذیر اشرفی بن حکیم محمد بشر بن کرمات میاں ۱۵؍جولائی ۱۹۲۶ء کو موضع بٹھگائیں تھانہ تریاں ضلع چپھرا صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔
خاندانی حالات
مولانا عبدالرشید رضوی کےوالد ماجد اپنے وقت کے نامور حکیم تھے۔ طب یونانی میں مہارت رکھتے تھے۔ اپنے گاؤں ہی میں مطب کرتے تھے۔ اسی وجہ سےمولانا عبدالرشید کا خاندان اپنے گاؤں اور قرب وجوار میں عزت و قعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مولانا عبدالرشید کے بڑےوالد بھی دید تھے اور اس فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ اپنے وقت کے تجربہ کار اور ہر ولغریز حکیم گزرے ہیں۔
مولانا عبدالرشید کے دادا محترم حضرت مولانا عظیم اللہ بلیاوی سکندری پوری سے سلسلہ رشیدیہ میں۱۹۳۵ء کو منسلک ہوئے اور آخر عمر میں اور ادو وظائف میں مشغول رہا کرتے تھے۔ بالآخر ۱۹۴۳ء میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔
مولانا عبدالرشید کے والد حکیم محمد نذیر اشرفی متصلب سنی صحیح العقیدہ تھے۔ بمقام انگس ضلع ہگلی بنگال میں ۱۹۳۶ء کو حضرت مولانا شاہ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے مریدہوئے۔ ۱۹۴۵ء میں بنگال کی سکونت ترک کر کے اپنے آبائی مکان ہی پر مطلب کرنے لگے۔ ۲۷؍جنوری ۱۹۷۷ء کو انتقال ہوا۔
تعلیم وتربیت
مولانا عبدالرشید کے گاؤں میں ایک نیک کاتون تھیں رشتہ میں دادی لگتی تھیں؛ انہوں نے قاعدہ بغدادی شروع کرایا۔ پھر اپنے گاؤں کے قریب میں موضو رشید پور میں ایک مولوی صاحب سے پارہ عم، اردو کا پہلا اور دوسرا قاعدہ پڑھا۔ اور مکمل کلام پاک انہیں خاتون سے پڑھا جنہوں نے بسم اللہ کرائی تھی۔ اس کے بعد ہندی اسکول میں کچھ تعلیم پائی۔ اس زمانہ میں مولانا عبدالرشید کے والد ماجد کلکتہ رہا کرتے تھے اپنے ساتھ لے گئے۔ اور حضرت مولانا عظیم اللہ کی درسگاہ میں داخل کردیا۔ وہاں فارسی کی گلستاں بوستاں کا ایک ایک بابن نیز میزان مشعب پڑھی۔ جب مولانا عظیم اللہ رشیدی وہاں سے چلے گئے تو پھر مولانا عبدالرشید اپنے آبائی وطن چلے آئے۔ اتفاق سے گاؤں والوں نے مسجد کی امامت کے لیے ضلع مظفر پور بہار کےایک مولوی محمد اسمٰعیل کو رکھ لیا تھا۔ مولویمحمد اسمٰعیل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے فارغ تھے۔
مولانا عبدارلشید نے ان سے پنج گنج نحو میر اور صرف میر پڑھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ۱۹۳۹ء میں والد صاحب نے جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں داخلہ کرادیا درمیان میں ایک دو سال کے لیے ۱۹۴۲ء میں مبارکپور سے پوکھریرا ضلع مظفر پور چلے گئے۔ لیکن وہاں کی تعلیم سےمطمئن نہیں ہوئے۔ دوبارہ ۱۹۴۷ء میں مبارکپور آکر دورہ کیا اور سند فراغت حاصل کی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی رضوی اعظمی
۲۔ حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی
۳۔ حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ مجددی اعظمی
۴۔ مولانا عبدالمصطفیٰ ازہری رضوی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی
۵۔ حضرت مفتی محمد شریف الحق إجدی رضوی اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ
۶۔ حضرت مولانا ثناء اللہ رضوی اعظمی
۷۔ حضرت قاری محمد عثمان گھوسی اعظم گڑھ
۸۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف بلیاوی ثم مبارکپور
۹۔ حضرت مولانا شمس الحق رضوی
۱۰۔ حضرت مفتی ظفر علی نعمانی ناظم اعلیٰ دارا لعلوم امجدیہ کراچی
۱۱۔ حضرت مولانا مظفر حسین ظفر ادیبی مبارکپوری
تدریسی زندگی
مولانا عبدالرشید فراغت کے بعد سب سے پہلے مدرسہ فاروقیہ بنارس میں صدر المدرسین کے عہدے پر مقرر ہوئے۔ مولانا عبدالرشید کی آمد کے بعد مدرسہ فاروقیہ بنارس الٰہ آباد بورڈ سے ملحق ہوا۔ آپ نے اپنی بھر پور کوششِ اور محنت سے درجۂ منشی، کامل، مولوی اور عالم تک مدرسہ میں تعلیمی خدمات انجام دیں۔ ستمبر ۱۹۴۷ء سے مارچ ۱۹۵۱ء تک مدرسہ فاروقیہ بنارس میں خدمت انجام دیتے رہے۔
مولانا عبدالرشید مدرسہ فاروقیہ کی ملازمت چھوڑ کر صوبہ بہار کے مشہور گاؤں سربیلا ضلع سہرسہ مدرسہ قادریہ انوار العلوم میں ۲۳؍اپریل ۱۹۵۱ء سے ۳۱؍جولائی ۱۹۸۸ء تک صدر مدرس کے عہدے پر فائز رہے۔ اور اس وقت مدرسہ شمس العلوم گھوسی عظم گڑھ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وقتاً فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دیتے ہیں، مولانا عبدالرشید کا سب سے پہلا فتویٰ میراث سے متعلق ہے۔
حج وزیارت
مولانا عبدالرشید ۱۹۷۵ء زیارت حرمین شریفین سے سر فراز ہوئے۔
بیعت وخلافت
مولانا عبدالرشید شعبان المعظم ۱۹۸۱ء میں حضور مفتئ اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور ساتھ ساتھ حضور مفتی اعظم نے خلافت بھی عطا فرمائی۔
اولادِ امجاد
مولانا عبدارلشید کی پہلی شاوح ی ۱۹۴۳ء کو ہوئی جس سے دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئیں۔ دوسری شادی ۱۹۷۷ء میں پہلی بیوی کے انتقال کے ایک سال بعد ہوئی۔ جس سے چار لڑکے اور ایک لرکی تولد ہوئے، اسماء مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ محمد حفیظ اللہ انصاری
۲۔ محمد نعیم اللہ انصاری
۳۔ بیبی یاسمین کاتون
۴۔ عبدالشہید انصاری
۵۔ بی بی میمونہ خاتون
۶۔ عبدالوحید انصاری
۷۔ محمود توحید انصاری
۸۔ عبدالمعبود انصاری[1]
[1]۔ یہ جملہ کوائف مکرمی مولانا عطا محمد رضوی اترولوی متعلم جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے راقم کی درخواست پر مہیا فرمائے۔ ۱۲،رضوی غفرلہٗ