عاشق رسول حضرت مولانا حاجی عبداللہ بن محمد فقیر سومرو گوٹھ جونانی (تحصیل وارہ ضلع لاڑکانہ) میں ۱۸۷۰ئ؍۱۲۸۷ھ کوتو لد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
اس دور کی مشہور دینی درسگاہ رہڑو شریف (تحصیل میہڑ ضلع دادو سندھ ) میں درس نظامی مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت:
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں حضرت شیخ طریقت پیر سید شاہ دوران محی الدین راشدی درگاہ شریف پیر جو گوٹھ (بٹ سرائی تحصیل میہڑ ) سے دست بیعت ہوئے اور درگاہ شریف پیر جو گوٹھ (نو ڈیرو ) اور گوٹھ کھٹھڑ (تحصیل قمبرس) کے مشائخ راشدیہ سے عقیدت رکھتے تھے اور حاضری بھی دیتے تھے ۔
سفر حرمین شریفین :
مولانا عاشق رسول تھے ، مدینہ منورہ کیلئے دل تڑپتا تھا لیکن ظاہری اسباب نہ تھے لہذا آپکے تڑپتے دل کی اثر انگیزی اس طرح ظاہر ہوئی کہ ایک خدارسید ہ خاتون مائی فاطمہ لاکھیر علیہ الرحمھما نے اپنے خرچہ پر مولانا کو حرمین شریفین حج بیت اللہ اورروضہ رسول ﷺ کی حاضری کے لئے بھجوایا اس طرح عاشق رسول کی دلی آرزو تکمیل کو پہنچی ۔
شادی :
آپ نے اپنے خاندان میں سے ایک خاتون سے شادی کی جس سے نرینہ اولاد نہ ہوئی البتہ ایک لڑکی تولد ہوئی جو کہ صاحب اولاد ہے۔
شاعری :
مولانا عوامی شاعر تھے ، شاعری کی ہر صنف میں حضورﷺ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے ۔ مثلا : مولود ، نعت ، مداح ، لوری ، بیت ، کافی ، غزل مناجات اور خطبات وغیرہ ۔ آپ کا کلام عالمانہ ، معیارہ ، دلسوز اور پاکیزہ ہے۔ مشائخ راشدیہ کی شان میں مناقب لکھے ۔ عبداللہ ، مشتاق کو تخلص میں استعمال کرتے تھے۔
آپ کا اکثر کلام اپنوں کی غفلت اور عدم توجہی کے سبب ضائع ہوگیا۔ نومور شاعر جناب احمد خان آصف مصرانی بلوچ (تحصیل ککڑ) کو آپ کی ایک بوسیدہ قلمی کتاب دستیاب ہوئی جس پر کتابت کا سن ۱۵، ذوالقعدہ ۱۳۲۳ھ ؍ ۱۹۰۵ء تحریر شدہ تھا۔
اسی طرح نہ معلوم کس قدر کتابیں تلف ہوگئی ہوں گی ۔ آصف صاحب کی کوشش سے لوک ادب کی کتابوں میں محترم ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے آپ کا بعض کلام محفوظ کیا۔ مثلا مداحون ء مناجاتون۔ معجزامنا۔ قباوغیرہ ۔
ایک نعت شریف کو ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی نے ’’سندھی میں نعتیہ شاعری ‘‘میں درج کیا ہے اور فقیر راشدی نے اپنی کتاب ’’عبدمیلاد النبی کی شرعی حیثیت ‘‘ میں نقل کیا ہے ۔
مصطفی منھندار آیو عید تی
احمد مختار آیو عید تی
عادات وخصائل :
مولانا سلف صالحین کا نمونہ تھے ، گم نامی کو پسند کیا، نام و نمود سے کوسوں دور، سادگی وللہیت کی تصویر تھے، اخلاق و آداب سے آراستہ تھے۔ زندگی حضور پاک ﷺ کی مدحت سرائی میں گذاری ، شب وروز ذکر رسول ﷺ میں بسر ہوتے تھے۔ اپنے مشائخ طریقت سے بے انتہا عقیدت رکھتے تھے۔
وصال:
حضرت مولانا حاجی عبداللہ سومرو نے غالبا ۴۹؍ ۱۳۴۸ھ بمطابق ۲۸؍ ۱۹۲۹ء کو انتقال کیا اور اپنے گوٹھ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
[جناب احمد خان آصف مصرانی مرحوم کے مضمون سے ماخوذہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)