مولانا عبدالوہاب ’’عبد‘‘گلال
مولانا عبدالوہاب ’’عبد‘‘گلال (تذکرہ / سوانح)
مولانا عبدالوہاب بن عبدالکریم گلال گوٹھ گاھی مہیسر (تحصیل میہڑ ضلع دادو ) میں ایک اندازے کے مطابق ۱۸۸۵ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم گوٹھ گاہی مہیسر کی دینی درسگاہ سے حاصل کی جو کہ اس وقت معیاری درسگاہ میںشمار ہوتی تھی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے سندھ کی نامور درسگاہ دارالفیض سونہ جتوئی میں داخلہ لیا ، جہاں سندھ کے عظیم عالم و عارف استاد الاساتذہ علامہ مفتی اعظم ابوالفیض غلام عمر جتوئی قدس سرہ سے منتہی کتب پڑ ھ کر فارغ التحصیل ہوئے ۔
بیعت :
شیخ المشائخ حضرت آغا محمد عمر جان نقشبندی قدس سرہ خانقاہ چشمہ شریف (کوئٹہ بلوچستان ) سے سلسلہ نقشبندیہ میں دست بیعت ہوئے ۔
درس و تدریس :
بعد فراغت مادر علمی میں درس و تدریس سے تاحیات وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ علم طب میں بھی تحصیل کی ۔ جہالت کے خلاف علم کے چراغ جلائے اور امراض جسمانی کے خلاف صحت و آفیت کی تدابیر سے کام لے کر صحت مند معاشرہ قائم کرنے کی سعی کرتے رہے۔
شاعری :
مولانا پر جوش خطیب تھے۔ خلافت کے مبلغ تھے اور اپنے وقت کیک مقبول شاعر بھی ۔ حمد ، نعت ، منقبت اور غزل پر شاعر ی مشتمل ہے۔ عقائد و اعمال کے علاوہ اصلاح احوال پر مشتمل جمعہ کے خطبات سندھی میں مرتب کئے تھے ۔ خلافت کے اجتماعات میں مسلمانوں کو بیدار کرنے اور خلافت کا ہمنوا بنانے کے لئے نظم بھی پڑھا کرتے تھے۔
تحریک خلافت :
خلافت کی بات نکلی ہے تو وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ابتداء میں خلافت عثمانیہ کو بچانے کیلئے مسلمانوں کو متحد و منظم کیا گیا۔ شہر شہر قریہ قریہ کانفرنس بلوا کر مسلمانوں کو انگریز غاصب کا اصلی روپ دکھایا گیا ۔ چندہ لیا گیا، مسلمانوں نے اپنی جمع پونجی جمع کرا کر خلافت عثمانیہ کے ساتھ اپنی ہمدردیاں دکھائی۔ لیکن آگے چل کر کانگریسی مولویوں نے اس خالص اسلامی دینی مسئلہ میں ایک کافر کو اپنا امیر بنادیا۔ مسلمانوں کا چندہ اس کافر امیر کی گرفت میں آگیا، اس کو سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا اور اس نے مسلمانوں کی دولت پر اپنے مفادات حاصل کئے۔ خلافتی اتنے جوش میں آگے نکل گئے کہ ہوش پر جوش غالب رہا یہاں تک کہ دنیا نے دیکھا کہ انگریز کی مخالفت میں دوسرے کافر (گاندھی) کو نہ فقط دوست بنا لیا بلکہ رہبر و رہنما بھی بنالیا۔ ’’ولایتی کافر دشمن دیسی کافر (گاندھی) دوست‘‘ یہ فارمولا سراسر قرآنی تعلیمات کے خلاف تھا لیکن جب دل و دماغ پر جوش غالب ہو تو صحیح فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح خلافت کو بچانے کیلئے پر جوش خلافتیوں نے کافر ہندو کا سہارا ڈھونڈھ لیا۔ اس عمل کو کوئی بھی ہوش مند کبھی بھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔
طریقے کار کی تبدیلی کے بعد علمائے اہل سنت کی اکثریت خلافت تحریک سے الگ ہوگئی تھی۔ مولانا گلال پر خلوص اور درد مسلم سے آشنا شخصیت تھے ، ہوسکتا ہے کہ وہ بھی بعد میں تحریک سے الگ ہو گئے ہوں مزید تفصیل کیلئے راقم کا رسالہ ’’ناکام سیاستدان‘‘ مطبوعہ کراچی۔
تلامذہ:
مولانا کے بعض تلامذہ کا علم ہوسکا ہے:
۱۔ لسان الامت مولانا سید علی اکبر شاہ سابق ممبر اسمبلی ۔ میہڑ
۲۔ مولانا محمد یعقوب جونیجو گوٹھ گھاڑو تحصیل میہڑ
۳۔ مولانا محمد شافع مہیسر رہڑو شریف
اولاد:
آپ نے ایک شادی کی جس سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی۔
۱۔ عبدالرحمن مرحوم
۲۔ عبدالکریم مرحوم
۳۔ عبدالمجید مرحوم
تصنیف و تالیف:
آپ سنی حنفی تھے۔ علامہ ابو الفیض کے شاگرد اور حضرت علامہ سرکار مشوری کے استاد بھائی تھے۔ مناظر اہل سنت علامہ مولانا اکرم الدین دبیر (متوفی ۱۹۴۶ء بمقام بھیں ضلع جہلم) کی شیعیت کے رد میں عوام الناس میں مقبول و مشہور کتاب ’’آفتاب ہدایت رد رفض و بدعت‘‘ سے بہت متاثر تھے اور اسی طرز پر شیعیت کے رد میں برزبان سندھی ’’تحفۃ الوہاب‘‘ کتاب لکھی۔ اس میں اردو نظمیں اکثر آفتاب ہدایت سے ماخوذ ہیں۔ آپ کو درس و تدریس ، شاعری کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کی اہمیت کا بھی احساس تھا۔ یہ اسی جذبہ کا نتیجہ ہے کہ آپ نے تحریری خدمات سر انجام دیں۔ یاد رہے آپ کے استاد محترم علامہ ابو الفیض ، استاد بھائی علامہ مشوری، استاد بھائی علامہ عبدالرحیم جتوئی آپ کے اور دیگر استاد بھائیوں نے بھی شیعت کے خلاف کتابیں لکھیں تھیں جنہیں آج جدید اسلوب میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۔ تحفت الوہاب (سندھی ۲ جلدیں) حصہ اول ذوالحجہ ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۷ء میں لکھ کر مکمل کر لی تھی ۔ جلد اول میں آسان سندھی میں شیعہ کی مستند و معتبر اور امہات الکتب سے ان کے غلیظ و باطل عقائد کی تردید کی ہے۔ اس جلد میں مزید تفصیلی مطالعے کیلئے مفتی اعظم علامہ محمد صاحبداد خان جمالی کے مجلہ الھمایوں شمارہ محترم ۱۳۴۵ھ کے مطالعہ کی دعوت دی گئی ہے۔
جلد دوئم میں شیعہ کی جانب سے کئے گئے اعتراضات و الزامات کے علمی و تحقیقی جوابات اس طرح آسانی سے دیئے گئے ہیں کہ کم فہم بھی آرام سے سمجھ سکتا ہے۔ آپ کے صاحبزادے حکیم خلیفہ عبدالمجید گلال نے دونوں کتابوں کو اعلیٰ کتابت کے بعد ۱۹۷۶ء میں خود شائع کیا۔
اس تفصیل سے معلومہوا کہ دونوں جدیں مصنف /مؤلف کی زندگی میں نہیں چھپ سکی تھیں (روشن صبح)
۲۔ خطبات وہاب (جمعہ کے خطبات) سندھی نظم
۳۔ تفسیر القرآن
اس کے علاوہ بھی عربی فارسی اور سندھی میں بعض کتابیں تحریر فرمائیں ان میں سے بعض ضائع ہو گئیں اور بعض قلمی ذخیرہ کی صورت میں آپ کے پوتے کے پاس محفوظ ہیں۔
وصال:
مولانا حکیم عبدالوہاب گلال نے بھر پور دینی زندگی گزار کر ایک اندازے کے مطابق ۱۹۵۰ئ/۱۳۷۰ھ کو انتقال کیا۔ آپ کا مزار گوٹھ گاھی مہیسر کے قبرستان میں واقع ہے۔
(بعض معلومات مولانا گلال کے پوتے ڈاکٹر عبدالوہاب بن خلیفہ عبدالکریم سے حافظ عبدالستار نے حاصل کرکے بھجوائی۔ فقیر دونوں حضرات کا مشکور ہے ڈاکٹر صاحب خود اس غفلت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا کی بروقت سوانح نہ لکھنے کی وجہ سے راویوں کی عدم دستیابی (انتقال) کے سبب آج اس عظیم شخصیت کے بہت سارے گوشے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں۔
یہ فقط مولانا گلال کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ اس غلفت کا شکار ، سندھ کے بے شمار دریکتا، گوہر نایاب ہیں۔ جن کے حالات زندگی سے کتابیں خالی ، راوی مدفون، خاندان احساس زیاں سے محروم ، تلامذہ عدم توجہ کا شکار اور ادیب بے بس، مجبوراً خاموش……)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)