مولانا عبد الباسط بن مولوی رستم علی بن ملّا علی اصغر قنوجی: قنوج کے علمائے کبار اور فضلائے مشاہیر نامدار سے فقہ وحدیث و تفسیر اور فروع واصول میں ایک آیت منجملہ آیات الٰہی تھے اور اپنے عہد میں تمام علماء وفضلاء پر سخن بالا اور مرتبہ والا رکھتے تھے،۱۱۵۹ھ میں پیدا ہوئے۔’’چشم رستم علی‘‘ آپ کی تاریخ ولادت ہے۔تمام علوم رسمیہ ومتداولہ کیا منقول وکیا معقول اپنے والد ماجد سے حاصل کیے اور بہت سی کتب اپنی تصنیفات اور دیگر علماء کی تالیفات اپنے ہاتھ سے لکھیں جواب تک آپ کے کتب خانہ میں موجود ہیں اور اس قدر صحیح و محشی ہیں کہ استاد سے حاجت تعلیم کی باقی نہیں رہتی۔اگر کسی کو سلیقہ عبارت پڑھنے اور ملکہ مطلب سمجھے کا ہو تو اس کے لیے یہ کتابیں آپ کی درست کی ہوئیں بجائے شیخ شفیق کے ہیں،بہت سی خلقت نے دور و نزدیک سے آکر آپ کے مدرسہ میں فاتحۂ فراغت پڑھی اور مرتبۂ فضیلت و کمالیت حاصل کیا چنانچہ مفتی ولی اللہ فرخ آبادی صاحب تفسیر نظم الجواہر اور مولوی نعیم الدین اور مولوی علیم الدین پسران مولوی فصح الدین قنوجی و مولوی قادر بخش بلہوری جو سب عالم فاضل صاحب تصنیف ہوئے ہیں۔آپ کے تلامذہ میں سے ہیں آپ کے آباء واجداد صاحب علم و عمل اولاد شیخ عماد الدین کرمانی صاحب فتاویٰ عمادیہ سے تھے جو شہر کرمان سے آکر قنوج میں سکونت پذیر ہوئے تھے،آپ کی تصنیفات بہت ہیں اور تمام مفید چنانچہ تفسیر ذولفقار خانی،نظم اللآلی فی شرح ثلاثیات البخاری،انتخاب الحسنات ترجمۂ اھادیث دلائل الخیرات،جبل المتین فی شرح الاربعین،جواہر خمسہ فرائض میں عجیب البیان فی اسرار القرآن،شفاء الشافیہ فی شرح شافیۃ ابن حاجب وغیرہ مشہور و معروف ہیں،وفات آپ کی دوم ربیع الآخر۱۲۲۳ھ میں ہوئی اور شہر قنوج میں اپنی مسجد کے آگے صفہ کے نیچے اپنے آباء واجداد کے پہلے میں دفن ہوئے۔’’شمع شبستان‘‘ تاریخ و فات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)