مولانا عبد الکریم بن مولانا درویزہ پشاوری: آپ کو اخوند کریم داد کے نام سے بھی پکارتے تھے،علوم ظاہری و باطنی اپنے والد ماجد سے حاصل کیے یہاں تک کہ آپ محقق افغانستان کے خطاب سے مخاطب ہوئے،اخیر کو میر سید علی غوارل کے مرید کر خرقۂ خلافت حاصل کیا اور صاحبِ شریعت و طریقت اور حقیقت ہوئے۔کتاب مخزن الاسلام تصنیف کی،آپ ہر روز رات کو ایک جرزو سفید کاغذ کا اپنے حجرہ میں لے جاتے تھے اور بغیر چراغ روشن کیے،تحریر فرماکر صبح اپنے یاروں کو دے دیتے تھے یہاں تک کہ کتاب مزکور اختتام کو پہنچی۔
کہتے ہیں کہ آپ سے ایک شخص نےپوچھا تھا کہ غوث کس کو کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ غوث کی نشانی یہ ہےک ہ جب وہ مرجائے اور کوئی شخص اس کے منہ پر نظر ڈالے تو وہ آگے سے تبسم کرے،پس جب آپ نے ۱۰۷۲ھ میں وفات پائی تو شخص مذکور نے امتحاناً آپ کے چہرہ پر نظر ڈالی،آپ نے یہاں تک کہ تبسم کیا کہ قریب تھا کہ گفتگو کرنے لگیں،اس پر شخص مذکور نے توبہ کی اور کہا کہ میں اس سے زیادہ اور کوئی دلیل نہیں چاہتا،مزار آپ کا علاقہ یوسف زئی م یں زیارت گاہ عام ہے۔’’منبع فضل‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)