آپ بر صغیر کے زبردست علماء کرام اور ولی اللہ تھے چشتی سلسلے میں بیعت تھے۔ شیر شاہ سوری کے زمانہ سے لے کر شہنشاہ اکبر تک آپ کومخدوم الملک کا خطاب رہا۔ چونکہ شریعت کے عالم اور طریقت کے عارف تھے۔ کفر اور بدعت کے خلاف بڑا کام کرتے تھے اور کلمۂ توحید کے اعلان میں پیش پیش تھے۔ آپ نے سُنت نبوی کو جاری کرنے میں بڑی جدو جہد کی حتٰی کہ جن دنوں شہنشاہ اکبر نے دین الٰہی کا اعلان کیا اور ملک میں غیر اسلامی رسومات کو رواج دیا پھر اس نے لوگوں کو یہ بھی کہا کہ صبح خوبصورت سورج کو چڑھتے وقت سجدہ کیا جائے اور کلمۂ محمدی کی بجائے لا الہ اللہ ہو اکبر خلیفہ اللہ پڑھا جائے تو مولانا عبد اللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ جہاد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے آخر بار اکبر نے انہیں حکم دیا کہ وہ میرے ملک سے نکل جائے آپ مسجد میں جا بیٹھے اکبر نے کہا کہ مسجد بھی ہمارے ملک میں ہے یہاں سے بھی باہر نکل جاؤ اور کسی دوسرے ملک میں چلے جاؤ آپ ہندوستان سے نکلے تو بیت اللہ شریف کو روانہ ہونے حج کرنے کے بعد واپس ہندوستان آئے بادشاہ کے حکم سے آپ کے کھانے میں زہر ملادیا گیا اور اس طرح آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ آپ کی بہت سی تصانیف اہل علم کے لیے مشعل راہ بنی۔
چنانچہ کشفُ الصمد۔ منہاج الدین اور عفیفۃ الانبیاء زمانہ بھر میں مشہور ہوئیں۔ آپ کی شہادت کا واقعہ ۱۰۰۶ھ ہجری میں ہوا۔
از عبادت یافت عبداللہ خلد
رحلت آن عابد عالی مکان
آفتاب فقر عبداللہ گو
نیز فرما آفتاب عاشقان
۱۰۰۶ھ